CrazyLatestRomanticSabahat Khan

Dewana By Sabahat Khan (Episode 3)

Advertisement

Dewana By Sabahat Khan (Episode 3)

دیوانہ
صباحت خان
قسط 3

بیٹا آفس جا رہے ہو۔۔؟ صالحہ کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔۔بلیک جینز پر وائٹ شرٹ پہنے سادہ سے بال بنائے وہ بہت ڈیسنٹ اور اچھا لگ رہا تھا

جی آنٹی کیا ہوا آپ کو کچھ کام ہے۔۔؟ شیری نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔ہاں بیٹا آج تمارے انکل جلدی چلے گئے تھے اور نین کا پیپر ہے تم اسے چھوڑ دو گے کالج صالحہ کی نظروں میں سوال تھا۔۔
شیری نے ایک نظر نین کو دیکھا جو پورے دھیان سے ناشتہ کر رہی تھی جیسے اس سے اہم کام کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے آنٹی پر نین کو پانچ منٹ میں باہر بھیج دیں میں ویٹ کر رہا ہوں دراصل میری ضروری میٹنگ ہے شیری نے صالحہ کو دیکھ کر آرام سے جواب دیا اور لاؤنچ سے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔

مما میں نہیں جاؤں گی اس نقلی کے شیر کے ساتھ کالج آپ نے اسے کیوں کہا۔۔؟ شیری کے باہر جاتے ہی وہ ناشتہ چھوڑ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔
شیری پر مجھے بھروسہ ہے اور کس کے ساتھ بھیجوں۔؟؟
آج ڈرائیور بھی نہیں آیا جو اس کے ساتھ چلی جاؤ تم اور تمہارے معاملے میں ہم ہر ایک پر بھروسہ نہیں کر سکتے اب جلدی سے جاؤ تم وہ باہر انتظار کر رہا ہے۔۔۔
صالحہ کے پیار سے سمجھانے پر اس نے منہ بنایا۔۔۔ لیٹ تو اسے بھی ہو رہا تھا اس لیے اس نے مزید بحث چھوڑ کر جلدی سے اپنا بیگ لیا اور مما کے گال۔پر پیار کرتی ہوئی باہر بھاگ گئی۔۔۔

پاگل۔۔۔۔صالحہ نے مسکرا کے اسے دیکھا اور کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔

وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اپنا موبائل دیکھ رہا تھا جب دروازا کھول کر کوئی اندر بیٹھا۔۔۔۔۔شیری نے ایک نظر اسے دیکھا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔

یا اللّٰہ پلیز پلیز اچھا سا پیپر ہو جائے ایک بھی غلطی نا ہو پلیزز۔۔۔۔ پھر میں مما کی سب باتیں مانوں گی آپ بھی پلیز میری بات مان لو۔۔۔۔آنکھیں بند کیے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑے وہ اوپر کی طرف دیکھتی ہوئی پوری دعا میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔
شیری نے حیرت سے اس پاگل لڑکی کو دیکھا وائٹ کلر کے کالج کے ڈریس میں سر پر ڈوپٹہ لیے ہوئے وہ اتنی تیز آواز میں دعا مانگتی ہوئی بہت زیادہ معصوم لگ رہی تھی۔۔۔

اتنی معصوم سی شکل بناؤں گی تو اللّٰہ کو تو دعا پوری کرنی پڑے گی شیری نے اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا جب کہ وہ اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر اپنی ہنسی روکنا چاہ رہا تھا۔۔۔

میں جیسی بھی شکل بناؤ آپ کو کیا نین نے آنکھیں کھول کر اسے گھورا اسے یہ کھڑوس بہت برا لگتا تھا حد سے زیادہ۔۔۔۔
ایک ایک منٹ آپ ہنستے بھی ہو۔۔؟ نین نے ایک دم جھک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔شیری کا چہرہ واپس سریس ہو گیا۔۔

آپ واقعی ہنسے تھے یا یہ میرا وہم تھا۔۔۔؟ یا اللّٰہ آج کا دن ہی بڑا عجیب ہے۔۔۔اب وہ واپس اوپر دیکھتی ہوئی بات کر رہی تھی شیری نے اسے دیکھ کر نفی میں سر ہلایا یہ لڑکی تھوڑی نہیں پوری پاگل تھی۔۔۔

ابھی کالج آنے میں تھوڑا راستہ باقی تھا جب ان کی گاڑی کے سامنے ایک اور گاڑی آکر رکی۔۔۔شیری نے ایک دم گاڑی کو بریک لگایا۔۔
یہ کون پاگل ہے جو ایک دم سامنے آگیا مجھے پہلے ہی لیٹ ہورہا ہے میرا پیپر مس ہو جائے گا نین نے سامنے کھڑی بلیک کلر کی گاڑی کو دیکھ کر منہ بنایا۔۔۔

ششش__!!! شیری نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اسے کسی خطرے کی گھنٹی کا احساس ہو چکا تھا۔۔۔سیٹ کے نیچے سے اس نے اپنی گن نکالی وہ ہمیشہ ایک گن اپنی گاڑی میں لازمی رکھتا تھا۔۔۔اب تک سامنے والی گاڑی میں سے کوئی باہر نہیں آیا تھا گاڑی کے شیشے کالے ہونے کی وجہ سے اندر موجود افراد بھی دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔۔

شیری آرام سے اپنی گاڑی پیچھے لینے لگا جب ایک اور بلیک کلر کی گاڑی اس کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔
نین تم نیچے جھک جاؤ شیری نے اس کی طرف دیکھ کر آرام سے کہا نین کے چہرے پر بھی گھبراہٹ صاف دیکھائی دینے لگی اس بار اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔۔

وہ گاڑی کا دروازا کھول کر باہر نکلا اس نے اپنی گن باری باری دونوں گاڑیوں کی طرف کی۔۔۔

دونوں گاڑیوں میں موجود نقاب پوش باہر آئے ان سب کے ہاتھوں میں گن موجود تھی۔۔اس وقت شیری کو اپنی نہیں نین کی فکر تھی اگر وہ اس کے ساتھ نہیں ہوتی تو وہ اچھے سے ان سب کو سنبھال لیتا۔۔

ہاتھ اوپر ۔۔۔۔۔!!وہ ان آدمیوں کی طرف بڑھنے لگا جب ان آدمیوں میں سے ایک نے شیری کی طرف گن کرتے ہوئے کڑک آواز میں کہا۔۔۔

کون ہو تم لوگ کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟شیری نے اب تک اپنی گن نیچے نہیں کی بلکے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ غصے سے سوال کر رہا تھا۔۔۔

آاااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نین کے چیخنے کی آواز پر شیری جلدی سے گاڑی کے پاس آیا۔۔۔۔ایک آدمی نے کھڑکی میں سے نین کے بال پکڑے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گن اس کے ماتھے پر رکھے ہوئے تھا وہ اس وقت تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔۔

باہر نکل اس آدمی نے نین کے بالوں کو جھٹکا دیا جس سے وہ ایک بار اور درد سے چیخی۔۔۔۔۔۔

چھوڑ دے لڑکی کو۔۔۔شیری جلدی سے اس آدمی کے پاس پہنچ کر اسے گلے سے پکڑا وہ کچھ اور کرتا اس سے پہلے کسی نے زور سے گن اس کے سر پر ماری آااااااا۔۔۔۔۔۔
وہ درد سے کراہتے ہوئے نیچے گٹھنے کے بل گرا۔۔۔۔

شیری بھائی۔۔۔!! نین نے گاڑی سے نکل کر چیختے ہوئے شیری کی طرف دیکھا جو بار بار آپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا جو درد سے بند ہو رہی تھی۔۔

جو ہمیں چاہیے تھا وہ ہمیں مل گیا۔۔!! اس آدمی نے شیری کو دیکھا جو گاڑی کو پکڑ کر اٹھنا چاہ رہا تھا۔۔۔

اس نے فوراً سے شیری کے پیٹ میں ایک ٹھوکر مارتے ہوئے نین کی طرف دیکھا جو اس آدمی کی پکڑ میں بری طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔

شیری بھائی۔۔۔۔۔۔ وہ شیری کی طرف دیکھ کر اسے آوازیں دے رہی تھی ہر وہ ہوش میں ہوتا تو سنتا۔۔۔۔

گاڑی میں ڈالو لڑکی کو اس آدمی نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور خود بھی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

شیری نے بند ہوتی آنکھوں سے دیکھا وہ اپنا ہاتھ اس کی طرف کر رہی تھی وہ تیز تیز اسے پکار رہی تھی اس نے اٹھنا چاہا پر سر میں درد کی ٹھیس اتنی زیادہ تھی اسے سب دھندلا نظر آرہا تھا۔۔

نین۔۔۔!!!!اس نے بند ہوتی آنکھوں سے اس کالی گاڑی کو دور جاتے ہوئے دیکھا

*******

ماہم۔۔۔ماہم۔۔۔وہ اسے آواز دیتی ہوئی لاؤنچ میں آئی۔۔جہاں ماہم بغیر اس کی طرف دیکھے ٹی وی پر کوئی شو دیکھنے میں مصروف تھی۔۔

ماہم یار میری بات تو سنو۔۔۔۔نایاب نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کا رُخ اپنی طرف کیا۔۔۔
کیا بات سنوں میں۔۔۔؟؟ میں نے کل تمہیں کتنا سمجھایا پھر بھی تم کمرہ بند کر کے سو گئی ماہم نے ٹی وی کا ریموٹ سامنے ٹیبل پر پٹھکتے ہوئے غصے سے کہا۔۔

میں یہی تو بتانا چاہتی۔۔۔۔۔۔بس مجھے اب کچھ نہیں سننا تم رہو اپنی تنہائی کے ساتھ ماہم نے غصے میں اس کی طرف دیکھا اور اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
بیٹا اس کی فکر نہیں کرو وہ خود ٹھیک ہو جائے گی۔۔شازیہ نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جو ماہم کے روم کے دروازے کو پریشانی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

مما مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے نایاب شازیہ کی طرف دیکھ کر اپنی انگلیوں سے کھیلنے لگی۔۔
جی بیٹا بولو۔۔۔۔؟ کیا بات بتانی ہے۔۔؟ شازیہ نے پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

مما وہ۔۔۔۔۔۔۔واہ بھئی کیا بات ہورہی ہے دونوں ماں بیٹی کے درمیان۔۔۔۔؟ حسان صاحب نے اندر قدم رکھتے ہوئے کہا۔۔
ہم بات کرتے اس سے پہلے تو آپ آ گئے۔۔۔۔۔ ویسے خیر تو ہے آج اتنی جلدی گھر پر کیسے۔۔؟ شازیہ اب نایاب کو چھوڑ کر اپنے شوہر سے سوال کرنے لگی۔۔۔

وہ زیشان صاحب اور ان کی فیملی آج شام کو ہمارے گھر آرہے ہیں شادی کی بات کرنے۔۔۔۔
کیا اچانک کیسے۔۔۔؟ حسان صاحب کی بات پر شازیہ کو حیرت کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی اتنی جلدی سب تیاری کیسے ہوں گی۔۔۔۔

زیشان حسان کے بزنس پاٹنر تو تھے ہی اب ساتھ ساتھ رشتےدار بھی بننے والے تھے زیشان نے اپنے بیٹے منیب کا رشتہ دو سال پہلے ماہم سے کر دیا تھا آج باقائدہ وہ لوگ تاریخ لینے آرہے تھے۔۔۔۔

کیا سچی۔۔۔؟ میں ماہم کو بتاتی ہوں نایاب نے دونوں کی بات سن کر فوراً ماہم کے کمرے میں دوڑ لگائی جس پر حسان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔

*****

اس نے لات مار کر ایک جھٹکے سے دروازے کو توڑا۔۔۔لکڑی کا دروازا ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔۔۔

کہا ہے نین۔۔۔!! اس نے چیختے ہوئے اندر قدم رکھا سامنے موجود آدمی اس کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔

تو اندر کیسے آیا تیری اتنی ہمت۔۔۔۔!!وہ لوگ اس وقت بغیر نقاب کے موجود تھے ان میں سے کچھ لوگ اپنی گن کی طرف بڑھے شیری نے آگے بڑھ کر ان پر مکوں کی بارش کردی۔۔۔۔۔

بتا کہاں ہے نین۔۔۔!! شیری نے ان میں سے ایک آدمی کی گن چھین کر اس کے ہی ماتھے پر رکھ دی اس وقت وہ زخمی ہوئے شیر کی طرح لگ رہا تھا اس کی وائٹ شرٹ اسی کے خون سے لال ہو رہی تھی سر سے خون کی ایک لکیر اس کے گردن میں جا رہی تھی اس کی نظریں یہاں وہاں نین کو تلاش کر رہی تھی۔۔۔۔۔

ہم نہیں بتائیں گے ورنہ مالک آاااااا۔۔۔۔۔۔۔شیری نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اس کے سر پر زور سے گن ماری۔۔۔۔

تجھے اور تیرے مالک کو میں دیکھ لوں گا مجھے بتاو نین کہاں ہے۔۔۔۔
شیری کے کہنے پر اس آدمی نے بند کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔شیری نے اس آدمی کو وہی پھینکا اور ان لوگوں کو گن دیکھاتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔

اس نے جیسے ہی کمرہ کھولا پورا کمرا روشنی سے نہاں گیا نین نے فوراً چہرے پر ہاتھ رکھ لیا اس وقت وہ کمرے کے بلکل کونے میں دیوار کے ساتھ چپک کر ڈری ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔

نین۔۔۔۔!! شیری کی آواز سنتے ہی نین نے اس کی طرف دیکھا اور جلدی سے اٹھ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔شیری بھائی۔۔۔وہ لوگ۔۔۔ششششش چپ ابھی یہاں سے نکلنا ہے شیری نے اپنا مضبوط حصار اس کے گرد باندھا اور اسے لیے روم سے باہر آیا۔۔۔

اگر تم لوگوں نے یہاں سے ایک قدم بھی بڑھایا ہم گولی چلا دے گے اس وقت وہ سارے آدمی ہاتھوں میں گن تھامے کھڑے تھے۔۔۔

وہ ڈر کے شیری کے پیچھے چھپنے لگی اس وقت وہ نڈر کسی سے نا ڈرنے والی نین ان لوگوں سے ڈر رہی تھی۔۔۔

ہمت ہے تو چلا گولی۔۔۔۔شیری نے چیخ کر کہا اسے پتا تھا ان لوگوں کو نین زندہ چاہیے اگر نین کو مارنا ہی ہوتا تو یہ لوگ اب تک مار چکے ہوتے۔۔۔

تو یہاں سے چلا جا ہمارا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں ہے ہمیں بس یہ لڑکی چاہیے ان میں سے ایک آدمی نے گردن ٹھیڑی کر کے نین کو دیکھا۔۔۔
ہاتھ تو لگا اسے اگر تجھے میں نے جہنم نہیں پہنچایا تو کہنا۔۔۔۔۔اس وقت وہ شدید غصے میں تھا وہ تھوڑا اور آگے ہو گیا اب نین اس کے پیچھے مکمل چھپ چکی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کا دل کر رہا تھا ان سب کو گولیوں سے چھلنی کر دے پر وہ اپنے ہاتھوں سے خون کرنا نہیں چاہتا تھا

پولیس۔۔۔۔۔۔!! سائرن کی آواز سن کر ایک آدمی نے دوسرے سے کہا۔۔۔
ابھی نکلتے ہیں یہاں سے ان کو بعد میں دیکھے گے وہ لوگ جلدی سے سائرن کی آواز سن کر وہاں سے بھاگ نکلے۔۔۔۔۔۔

نین کی رو رو کے ہچکیاں بندھ چکی تھی۔۔۔کچھ دیر میں پولیس گھر کے اندر موجود تھی۔۔۔
تو ٹھیک تو ہے۔۔؟؟مومن نے جلدی سے شیری کی طرف دیکھا۔۔۔۔

تم پولیس کبھی ٹائم پر نا پہنچنا۔۔۔۔۔شیری نے اپنے جگری دوست کو غصے سے دیکھا۔۔۔
تیرے مرنے سے پہلے پہنچ تو گیا احسان فراموش۔۔۔! مومن نے بھی غصے سے ہی جواب دیا وہ کہاں کسی سے کم تھا۔۔۔

یہ کون ہے۔۔؟ بھابھی؟۔۔۔۔ہیلو بھابھی مومن نے نین کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا جو مومن کو دیکھ کر شیری کے اور پاس ہو گئی تھی۔۔۔۔
کبھی تو سوچ سمجھ کر بولا کر عقل سے فارغ انسان۔۔۔۔!شیری نے اس کے کندھے پر مکا جڑا۔۔۔۔

افففف۔۔۔۔!! مار دیا اپنا یہ فولادی ہاتھ مجھ سے دور ہی رکھ چل نکلتے ہیں یہاں سے اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور خود ان دونوں کو لیے گھر سے باہر آگیا۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو نے اس گنڈے کی جیب میں اپنا موبائل کیسے ڈالا مومن کو اب اچانک وہ بات یاد آئی جب شیری نے اسے پی سی او سے فون کر کے اپنے موبائل کی لوکیشن پتہ کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔

جب میں نے اس کا گلا پکڑا تھا تب ہی ڈال دیا تھا۔۔۔۔۔یہاں اگر تلاشی میں میرا موبائل ملے تو
مجھے واپس کر دینا شیری نے سریس تاثر کے ساتھ جواب دیا۔۔۔۔۔

بھئی ماننا پڑے گا بھابھی کو تو نے فوراً دماغ لگا کر بچا لیا کیا دماغ لگایا ہے تجھے تو پولیس میں ہونا چاہیے بلکے تیرے جیسے لوگوں کی تو ہمارے ملک کو ضرورت ہے تو نے آرمی جوائن کیوں نہیں کی مومن کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتی تھی۔۔۔

ابھی بتا دوں سب۔۔؟ شیری نے اسے آنکھیں دیکھائی۔۔۔۔۔نین اپنا رونا بھول کر حیرت سے اپنے جیسے انسان کو دیکھ رہی تھی جو اسی کی طرح بہت بولتا تھا۔۔۔۔۔

اوو اچھا اچھا تم لوگ ابھی گھر جاؤ باقی سوال کل کروں گا مومن نے شیری کو آنکھ ماری اور اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

نین کا ہاتھ اب تک شیری نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا وہ اسے لیے گاڑی کے پاس آیا اسے سیٹ پر بیٹھا کر وہ دوسری طرف گھوم کر آیا۔۔۔اس نے ایک نظر نین کو دیکھا جس نے خود کو اچھے سے ڈوپٹے میں چھپایا ہوا تھا آج جب وہ اس سے دور ہوئی تو اسے معلوم ہوا یہ لڑکی اس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے آج اگر نین کو کچھ ہو جاتا وہ ان لوگوں کا حشر نشر کر دیتا۔۔۔ واپس سامنے کی طرف دیکھ کر اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔

*****

یار اب ناراضگی ختم کر دو آج تو تمہارے سسرال والے آرہے ہیں۔۔۔نایاب نے ماہم کے گال پر کس کرتے ہوئے پیار سے کہا۔۔۔ماہم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر مسکرا دی ویسے بھی آج وہ بہت خوش تھی۔۔۔

اچھا بتاؤ آج تم کون سا سوٹ پہنو گی میں تمہارے لیے نکالتی ہوں نایاب نے ماہم کی الماری کھولی جس میں الگ الگ رنگ کے کپڑے ترتیب سے ہینگر میں لٹکے ہوئے تھے۔۔۔
ایسا کرتی ہوں یہ نکال لیتی ہوں ریڈ کلر کی فراک نایاب نے ایک سوٹ باہر نکالا لال کلر کی فراک پر بہت خوبصورت گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ماہم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔۔

اچھا تم تیار ہو جاؤ میں مما کے ساتھ مدد کرواتی ہوں وہ ماہم کے گال پر پیار کرتی ہوئی باہر چلی گئی آج بہت دنوں بعد وہ خوش نظر آرہی تھی۔۔

اس نے مما کے ساتھ مل کر بہت کچھ بنایا تھا مہمان سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے ماہم بھی انہی کے پاس تھی وہ اپنے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے گلے میں ڈوپٹہ لیے سلاد بنانے میں مصروف تھی۔۔

لو بھئی سلاد بھی بن گئی اب برتن نکال لیتی ہوں پھر مما سے پوچھ لوں گی کھانا کب لگانا ہے نایاب نے پلیٹ کو ایک طرف رکھتے ہوئے خود سے کہا۔۔۔
اففف میں مہمانوں کے سامنے ایسے جاؤ گی اتنی گندی اس نے خود کی طرف دیکھا نارنجی کلر کے سوٹ میں وہ صاف ستھری اور بہت سادہ لگ رہی تھی۔۔۔
ایسا کرتی ہوں پہلے سوٹ چینج کر لوں خود سے بولتی ہوئی وہ کچن سے باہر نکل کر اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔

الماری میں سے لائٹ آسمانی کلر کا سوٹ نکال کر وہ فریش ہونے چلی گئی آج کی بھاگ دوڑ میں وہ سب بھول گئی تھی جو پچھلے کچھ دن سے اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔۔۔

سر پر ڈوپٹہ پہن کر وہ کمرے سے باہر آئی اس کا رخ ڈرائنگ روم کی طرف تھا جب اس کی نظر گارڈن میں گئی۔۔۔دو تین کبوتر جھولے کے پاس بیٹھے ہوئے آپس میں گوٹر گو کر رہے تھے نایاب مسکراتے ہوئے گارڈن کی طرف گئی پاس رکھے مٹی کے برتن میں سے اس نے ہاتھوں میں دانیں اٹھائے اور ان کبوتروں کو ڈالنے لگی اسے کبوتروں کو دانا ڈالنا بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔

کتنے خوبصورت ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے دانا ڈال رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے سے کسی بھاری مردانا آواز سنائی دی نایاب نے پیچھے مڑ کر دیکھا چھ فٹ سے نکلتا قد سفید رنگت اور دل کو چھو جانے والی مسکراہٹ وہ ایک مکمل خوبصورت مرد تھا۔۔۔۔

آپ کون۔۔؟ نایاب نے نا سمجھی سے اس لڑکے کو دیکھا جسے شاید اس نے آج پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔۔
اس نا چیز کو ساحل کہتے ہیں۔۔۔اس نے نایاب کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ نایاب نے اب اس سے کوئی اور سوال پوچھنا بہتر نہیں سمجھا۔۔۔

میں منیب کا بیسٹ فرینڈ ہوں۔۔۔نایاب کو چپ دیکھ کر ساحل نے خود ہی اپنا تعارف کروایا۔۔۔
جی آپ ہمارے مہمان ہیں آپ کو اندر ہونا چاہیے آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ماتھے پر بل ڈالے نایاب نے اسے دیکھا اس لڑکے کا فری ہونا اسے بلکل پسند نہیں آیا تھا۔۔۔

میں یہاں ایک کال کرنے آیا تھا اتنی خوبصورت لڑکی کو تنہا دیکھ کر یہاں چلا آیا اس نے بھی مٹی کے برتن سے کچھ دانے نکالے اور ہاتھ میں لیے کبوتروں کو ڈالنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب بھی مسکراہٹ تھی۔۔۔

جی بہتر آپ یہاں کبوتروں کو دانا دیں مجھے کام ہے نایاب نے بغیر اس کی طرف دیکھے جواب دیا اور مڑ کے جانے لگی جب اس نے اچانک نایاب کا ہاتھ پکڑا۔۔۔

ارے آپ کہاں جا رہی ہیں؟؟ کچھ دیر تو۔۔۔۔۔۔۔۔ساحل کی بات بیچ میں ہی رہ گئی اچانک تیز آندھی چلنے لگی۔۔۔نایاب نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے لیا۔۔۔۔۔ ہوا کا دباؤ بہت زیادہ تھا ساحل منہ پر ہاتھ رکھ کر خود کو روکنے لگا ہوا اسے پیچھے کی طرف دھکیل رہی تھی ۔۔۔۔۔

نایاب کے گلے میں گٹھلی سی ڈوب کے ابھری۔۔۔۔۔اس نے ڈر کے یہاں وہاں دیکھا۔۔۔۔یہ ہوا صرف ساحل کو پیچھے دھکیل رہی تھی نایاب پر اس کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔

نایاب جلدی سے وہاں سے اندر بھاگ گئی اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔اس کے اندر جاتے ہی ہوا بھی رک گئی۔۔۔۔وہ بری طرح کھانسنے لگا اس کے حلق میں مٹی چلی گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اچھے بھلے موسم میں اچانک آندھی کیسے شروع ہو گئی۔۔۔۔

اس نے اپنے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے سامنے دیکھا وہاں اب نایاب موجود نہیں تھی۔۔۔وہ اپنا موبائل جیب میں رکھ کر واپس ڈرائنگ روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔

آگ سے جلے گا تو جل کر راخ ہو جائے گا۔۔۔۔
میری محبت پر اگر آنکھ بھی اٹھائے گا۔۔۔۔۔۔۔

کسی نے نفرت سے اس شخص کو اندر جاتے ہوئے دیکھا اس کی آنکھیں لال انگارا ہو رہی تھی وہ اس کو جان سے مارنا چاہتا تھا۔۔۔پر اگر اس نے کسی کی جان لی وہ اپنی ہنی سے دور ہو جائے گا جو وہ کبھی ہو نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔

تڑپتا ہوں اس کی یاد میں جھلستا ہوں۔۔۔
میری جان سے میں محبت نہیں عشق کرتا ہوں۔۔۔

*****

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *