CrazyLatestRomanticSabahat Khan

Dewana By Sabahat Khan Episode 2

Advertisement

Dewana By Sabahat Khan Episode 2

دیوانہ
صباحت_خان
قسط 2

آپ لوگ کہی جارہے ہیں۔۔؟ وہ صبح کا گیا ابھی تھکا ہارا گھر لوٹا تھا جب صالحہ اور شیرازی صاحب کو تیار دیکھ کر اس نے شیرازی صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا،

جی بیٹا۔۔! میرے دوست کے گھر ایک پارٹی ہے تو میں اور تمہاری آنٹی وہاں جا رہے ہیں نین اپنے روم میں ہے اس کا کل پیپر ہے اس لیے وہ نہیں جارہی شیرازی صاحب نے مسکرا کے تفصیل سے جواب دیا،

جی انکل ٹھیک ہے شیری نے ایک نظر انہیں دیکھا اور اوپر اپنے روم کی طرف قدم بڑھائے..

شیری کو اوپر کا روم دیا گیا تھا اور وہ زیادہ تر اپنے روم میں رہنا پسند کرتا تھا۔۔!
بیٹا میں نے تمہارے اور نین کے لیے کھانا بناکر رکھ دیا ہے نین کو کہہ دینا وہ تمہیں گرم کر کے دے دیگی صالحہ کی بات پر اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

روم کو لاک کر کے اس نے اپنےے کورٹ اتار کر رکھا آج ایک کے بعد ایک کافی میٹنگز تھی اس وجہ سے وہ بہت تھک گیا تھا اپنی ٹائی کو ڈھیلا کرتے ہوئے وہ بیڈ پر ڈھیر ہو گیا بھوک تو اسے بہت تیز لگ رہی تھی پر اس بدتمیز لڑکی کو وہ ہرگز کھانے کا نہیں کہنے والا تھا۔۔۔!

واڈروب میں سے اپنے لیے ایک ٹراؤزر اور شرٹ نکال کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔۔!
آاااااااااااہ۔۔۔ابھی وہ نہا کے نکلا ہی تھا جب نین کی زور سے چیخنے کی آواز آئی اس نے جلدی سے ٹاول زمین پر پھینکا اور دروازہ کھول کر نیچھے بھاگا۔۔
آااااااہ۔۔۔ نین کی مسلسل چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں اس نے جلدی سے نین کے روم کا دروازہ کھولا جو لاکڈ تھا اس نے اپنے کندھے سے دروازے کو جھٹکا دیا۔۔

نین!!!!! شیری اسے آواز دینے کے ساتھ ساتھ دروازے کو بھی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا پر دروازا کھل نہیں رہا تھا اور اندر سے آواز آنا بھی بند ہو گئی تھی

وہ دو قدم پیچھے ہوا اور تیز سے دروازے کی طرف آیا وہ دروازہ توڑتا اس سے پہلے دروازہ کھل چکا تھا اور وہ سیدھا سامنے بیچھے کالین پر گر گیا۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔نین نے جیسے ہی ددوازا کھولا شیری ایک دم اندر آیا اس کا کندھا نین سے ٹکرایا جس کی وجہ سے نین نیچے بیڈ پر گر گئی اور شیری سیدھے زمین پر بیچھے کالین پر نین سے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا میں نے پہلی بار شیر کو گرتے ہوئے دیکھا ہاہاہا نین بیڈ پر ہی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگی جب کے شیری نے کھڑے ہو کر اسے غصے گھورا وہ جس لڑکی کی مدد کرنے آیا تھا وہ ہی اس پر ہنس رہی تھی،

تم چیخ کیوں رہی تھی شیری نے سریس تاثر کے ساتھ اسے گھورتے ہوئے سوال کیا جب کے اس کا دل کر رہا تھا اس لڑکی کو جان سے مار دے۔۔

میں کب چیخی۔۔؟ نین نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو اور بڑا کیا۔۔۔۔ابھی میں تمہاری چیخ سن کر ہی اندر آیا ہوں ورنہ مجھے کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو رات کو تمہاری شکل دیکھنے کے لیے یہاں آؤ شیری نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر جواب دیا۔۔

ارے وہ….!!! میرا اسائنمنٹ تھا نا اس دن نین نے بیڈ سے نیچے اتر کے اس دن کی طرف ایسے اشارہ کیا جیسے اس دن اس کے پیچھے ہو۔۔۔ شیری نے اس کے پیچھے دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔

ارے یہاں جب میں کھڑی تھی آپ کے لیپ ٹاپ کا چارجر لے آئی تھی تو آپ نے مجھے ڈانٹا تھا اس دن نین نے اسے اس دن کا حوالہ دیا۔۔۔۔

ہاں کیا ہوا تھا اس دن۔۔!!؟ شیری اب غور سے اس کی بات سننے لگا۔۔۔
اس دن میری اسائنمنٹ تھی اور آج ابھی اس کا رزلٹ آیا ہے آپ کو پتا ہے میرے پورے نمبر ہیں۔۔ ہائے!!!! میں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں نین نے اپنی آنکھیں زور سے بند کرتے ہوئے خوشی سے کہا۔۔۔۔،

کیا!!!! تم خوشی سے چیخی ؟؟؟؟ پاگل لڑکی تم میں عقل نام کی چیز ہے بھی یا نہیں۔۔۔؟؟؟؟ شیری اس کی پوری بات سن کر آگ بگولہ ہو گیا۔۔۔،

لو اس میں عقل کی کیا بات خوشی میں چیختے ہی تو ہیں روتے تھوڑی ہیں۔۔ نین نے مزے سے کہا جب کے شیری کا غصہ اس وقت ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔

پتا نہیں اس لڑکی میں کب عقل آئے گی شیری نے افسوس سے اس کی طرف دیکھا اور روم سے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔،

اچھا شیری بھائی سنو نین جلدی سے اس کے پیچھے آئی ویسے تو اسے یہ کھڑوس بلکل اچھا نہیں لگتا تھا پر صالحہ اسے سختی کے ساتھ بول کر گئی تھی کے شیری کو کھانا دینا ہے۔۔،

اب کیا ہے۔۔!!؟ شیری نے پیچھے مڑتے ہوئے تیز آواز میں کہا۔۔۔۔۔

میں تو کھانے کا پوچھ رہی تھی آپ جب دیکھو غصے میں ہی رہتے ہو نین نے بھی فوراً جواب دیا بھلا وہ کسی سے ڈر جائے ناممکن۔۔،

شیری نے لمبا سانس بھر کر اسے دیکھا۔۔۔گرم کر کے روم میں لے آؤ اسے آڈر دیتا ہوا وہ واپس اپنے روم میں چلا گیا ویسے بھی اسے بہت تیز بھوک لگ رہی تھی اب جب اس نے پوچھ ہی لیا کھانے کا تو اس نے بھی بتانے میں دیر نہیں کی۔۔۔۔

میرے روم میں لے آؤ۔۔۔۔۔!! نین نے اس کے جاتے ہی اس کی نقل اتاری یہ شخص اسے زہر لگتا تھا کھانے کا کیا پوچھ لیا وہ تو اسے نوکرانی ہی سمجھ بیٹھا پیر پٹکتی ہوئی وہ کچن کی طرف بڑھ گئی،

****

ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی سب پرندے اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے اداس سی شام میں وہ خود بھی اداس لگ رہی تھی گارڈن میں بیٹھی ہوئی آرام آرام سے جھولا جھول رہی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جب سے وہ ہاسپیٹل سے آئی ہے اس کے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے اسے اتنا تو پتا لگ گیا تھا اس کے آس پاس کوئی موجود رہتا ہے پر وہ کون ہے اور کیوں اس کے آس پاس رہتا ہے نایاب نے جھولا جھولتے ہوئے پیچھے دیکھا جہاں اس وقت کوئی نہیں تھا پر اسے ایسے لگ رہا تھا کوئی ہے جو اس کے پیچھے کھڑا ہے،

اب تو اس نے ماہم کو بھی کہنا چھوڑ دیا تھا کیوں کہ جب بھی ایسی کوئی بات ہوتی تھی تو ویسا بلکل نہیں ہوتا تھا جیسا نایاب کو نظر آتا تھا کیا یہ سب اس کا وہم تھا؟؟ یا پھر واقعی کوئی ہر وقت اس کے ساتھ تھا۔۔؟؟

نایاب کہاں ہو۔۔۔!!؟ لو تم یہاں بیٹھی ہو میں نے تمہیں پورے گھر میں تلاش کر لیا ماہم مسکرا کر بولتے ہوئے اس کے پاس ہی جھولے پر بیٹھ گئی نایاب نے ایک نظر اسے دیکھا اور خاموشی سے نظریں جھکا لی۔۔

نایاب کیا ہوا یار اس حادثے کے بعد تو تم بہت ہی خاموش رہنے لگی ہو ماہم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
ایسی بات نہیں ہے ماہم۔۔۔جس کا اتنا خیال کرنے والی بہن ہو وہ اداس ہو سکتی ہے کیا۔۔۔؟
نایاب نے ہلکے سے مسکرا کر اسے جواب دیا۔۔اچھا آج رات پارٹی ہے اپنے کسی رشتےدار کے یہاں اور اس بار میں کوئی بہانا نہیں سنوگی ماہم نے دھمکی دینے والے انداز میں اپنی بات کہی

یار ماہم تم جانتی تو ہو مجھے کہی جانا اب اچھا نہیں لگتا پھر بھی تم مجھ سے ضد کرتی ہو نایاب نے جھولے سے نیچے اترتے ہوئے کہا۔۔
تم چلو گی مما پاپا سب جا رہے ہیں اور تم بھی چلو گی میں نے کہہ دیا ماہم نے اسے پیچھے سے آواز دی جسے نایاب سنتے ہوئے اندر اپنے روم میں آگئی۔۔،

*****
سنو۔۔۔!! وہ اندر ٹرے لے کر آئی تو وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا نین نے غصے سے اسے دیکھا اور ٹرے کو بیڈ پر رکھ کر مڑنے لگی جب شیری نے اسے آواز دی،

جی۔۔!! نین نے مسکراتے ہوئے کہا جب کے اندر سے اسے بڑی ہنسی آرہی تھی۔۔،
بیٹھو تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔۔۔۔شیری نے سریس تاثر کے ساتھ کہا کیونکہ وہ نین کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دیکھ چکا تھا۔۔

نہیں نہیں مجھے ابھی بھوک نہیں ہے میں تو ابھی پڑھ رہی ہوں نا آپ کھاؤ۔۔۔۔۔!! نین نے فوراً منا کیا کیونکہ وہ اس کے سالن میں اتنی تیز مرچے ڈال کر جو لائی تھی۔۔۔
پڑھائی کے ساتھ کھانا بھی بہت ضروری ہے بیٹھو۔۔!! شیری نے لیپ ٹاپ سائڈ میں رکھ کر اسے بیٹھنے کا حکم دیا۔۔۔
وہ منہ بناتی ہوئی وہی بیڈ پر ایک سائڈ میں ٹک گئی اب اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے اسے تو بلکل مرچ پسند نہیں تھی وہ یہ سالن کیسے کھائے گی۔۔۔

کھاؤ۔۔!! شیری ہاتھ باندھ کر غور سے اسے دیکھ رہا تھا جو اب تک سالن کو گھورنے میں مصروف تھی۔۔
وہ میں۔۔۔۔!!میں نے کہا کھاؤ۔۔۔وہ کوئی بہانا بناتی اس سے پہلے شیری کی تیز آواز سے وہ ایک دم ڈر گئی۔۔

ویسے وہ کتنی ہی بہادر سہی پر تھی تو چھوٹی سی لڑکی۔۔۔ اس نے ڈرتے ہوئے روٹی توڑ کر سالن میں لگائی پھر شیری کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا۔۔

نین نے ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد وہ نوالا منہ میں لایا اس کے اندر تک مرچے لگ گئی اس نے شیری کی طرف دیکھا جو اب تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
پانی۔۔۔نین نے پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو شیری نے وہ گلاس ہاتھ میں اٹھا لیا۔۔۔۔

پہلے پوری روٹی کھاؤ پھر پانی ملے گا شیری کی بات سن کر اسے غصہ بھی آیا اور اوپر سے اتنی مرچے بھی لگ رہی تھی۔۔

مرچی!!! نین نے اس کی طرف دیکھ کے بےچارگی سے کہا پر شیری کے چہرے پر اس وقت بہت سختی تھی۔۔۔۔۔
کھاؤ۔۔۔!!! نا چاہتے ہوئے بھی اس نے ایک بار اور روٹی توڑی پھر ایک کے بعد ایک جلدی جلدی روٹی کھائی ابھی وہ آدھی روٹی ہی کھا پائی تھی جب اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے۔۔۔
پانی پانی!!!! اس نے جلدی سے شیری کے ہاتھ سے پانی لینا چاہا جسے وہ پیچھے کر چکا تھا۔۔۔

اتنی مرچے تم کسی اور کو کھلاؤ تو وہ سہی ہے اب خود نے کھائی تو پتا لگا، اب جب یہ روٹی ختم کرو گی تو ہی پانی ملے گا شیری نے سوچ لیا تھا آج اس بد تمیز لڑکی کو کس طرح لائن پر لانا ہے۔۔۔۔

سو۔۔۔سوری۔۔شیری بھائی۔۔۔پلیز۔۔۔پانی دے دو۔۔۔اس کی آنکھوں سے تیزی سے آنسوں گرنے لگے غصہ تو اس کا کب کا غائب ہو چکا تھا اب اسے رونا آرہا تھا۔۔۔
پلیز۔۔۔شیری بھائی۔۔پا۔۔پانی۔۔۔نین نے آنکھوں میں آنسوں بھر کر اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔

شیری نے آرام سے گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا اس نے آج پہلی بار اس لڑکی کا یہ روپ دیکھا تھا جسے دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گیا تھا۔۔
نین نے ایک سانس میں پورا گلاس پی لیا اور اب بھی ہوو ہوو کرتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔۔۔

یہ لو یہ کھا لو۔۔! شیری نے جیب سے ایک چاکلیٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی جسے نین نے فوراً تھام لیا اور بغیر ایک بھی منٹ ضائع کیے اس نے وہ چاکلیٹ کھول کر منہ میں رکھی اب جا کے اسے کچھ سکون ملا۔۔۔

سوری شیری بھائی۔۔۔!!میں آئندہ ایسی شرارت نہیں کروں گی نیچے منہ کیے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس وقت وہ بہت معصوم سی لڑکی لگ رہی تھی۔۔۔

اٹس اوکے۔۔۔!! اب تم جاؤ اور سہی کھانا لے کر آؤ شیری نے اس پر سے نظریں ہٹا کر نرمی سے کہا۔۔

نین ہاں میں سر ہلاتی ہوئی ٹرے لیے باہر چلی گئی اس کے جانے کے بعد اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔

سوری شیری بھائی۔۔۔!! افف میں یہ کیا سوچ رہا ہوں وہ بہت چھوٹی ہے شیری تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے اس نے خود کو ڈپٹا اور واپس لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔۔۔

*****
بیٹا میں نے سنا ہے تم رات کو جانے کے لیے مان گئی ہو مجھے بہت خوشی ہوئی شازیہ نے نایاب کے ماتھے پر پیار کیا۔۔
مما وہ ماہم ہی ضد کر رہی ہے پر میں تو۔۔۔اچھا ابھی بس چپ ہو جاؤ یہ دیکھو میں تمہارے لیے ڈریس لائی ہوں نایاب کی بات شازیہ بیگم نے بیچ میں ہی کاٹ دی۔۔

اس نے ایک نظر ڈریس کو دیکھا پیلے کلر کی فراک کے ساتھ چوڑی دار تھا اور اس پر وائٹ کلر کا بہت خوبصورت ڈوپٹہ تھا۔۔۔۔۔یہ پکڑو اور ٹائم سے ریڈی ہو جانا شازیہ نے اسے ڈریس تھاما یا اور خود اس کا گال تھپتھپا کر روم سے نکل گئی،

مما کے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر ڈریس کو دیکھا ہاسپیٹل سے آنے کے بعد وہ کہی باہر نہیں گئی تھی ہر بار وہ منا کر دیتی تھی پر اسے لگ رہا تھا آج اسے جانا ہی ہوگا ڈوپٹہ بیڈ پر رکھ کر سوٹ ہاتھ میں لیے وہ شاور لینے چلی گئی۔۔۔

وہ نہا کر جب باہر آئی اس کا روم بند تھا اسے یاد تھا جب مما گئی اس نے روم لاک نہیں کیا تھا۔۔ہو سکتا ہے مما یا ماہم آئی ہو ان میں سے کسی نے بند کر دیا ہو آج کل میں زیادہ ہی سوچ رہی ہوں۔۔!! نایاب نے خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے بال سیدھے کیے، کان میں سفید کلر کے ڈائمنڈ کے ٹاپس اس نے پہلے سے پہنے ہوئے تھے۔۔

اس نے ڈوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالا وہ سادگی میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی وہ واپس آئینے کے سامنے آئی خود کو شیشے میں دیکھ کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔۔۔ سفید کلر تم پر بہت پیارا لگتا ہے۔۔شیشے میں سے ایک دم اسے کوئی عکس نظر آیا وہ جلدی سے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔

وائٹ کلر پہن کر آج کے بعد تم باہر نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔نایاب نے زور سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیا کون ہو تم؟؟ کس کی آواز ہے یہ۔۔۔؟؟ کوئی مردانا بھاری آواز بار بار اس کے کانوں سے گزرتی ہوئی، دماغ میں لگ رہی تھی نایاب گٹھنے کے بل بیٹھ گئی۔۔۔

مجھے اچھا لگتا ہے وائٹ کلر میں پہنوں گی۔۔۔ نایاب نے جلتی ہوئی آنکھوں سے سامنے شیشے میں دیکھا جہاں اسی کا عکس موجود تھا جو سفید کلر پہنے کسی سے ضد کر رہی تھی۔۔۔۔،

نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔وہ زور زور سے چیخنے لگی ایک دم ہر جگہ سناٹا ہو گیا کہی پر کوئی بھی نہیں تھا نایاب کی آنکھیں رونے سے لال ہونے لگی اس نے چاروں اور دیکھا نا ہی اب کوئی مردانا آواز تھی نا ہی شیشے میں اس کا عکس تھا۔۔

اس نے جلدی سے اپنے آنسؤں صاف کیے۔۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا وہ پاگل ہو گئی ہے یہ کیسی آوازیں تھی جو اکثر اسے تنگ کرتی تھی۔۔
نایاب دروازا کھولو دیر ہو رہی ہے ماہم کی باہر سے آواز آئی وہ دروازہ بجاتے ہوئے اسے آواز دے رہی تھی۔۔

وہ جلدی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی پر وہ لاکڈ تھا نایاب نے دو تین بار ہینڈل کو گھومایا پر دروازا ایسا لگ رہا تھا جام ہو گیا ہے۔۔

ماہم دروازا نہیں کھل رہا۔۔۔وہ زور زور سے دروازہ بجانے لگی۔۔۔۔ ماہم دروازا نہیں کھل رہا۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے نایاب کا پورا چہرا آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔۔

کیا ہوا ماہم بیٹا نایاب نے دروازہ نہیں کھولا؟ شازیہ بیگم کی باہر سے اسے آواز آئی۔۔ نہیں مما وہ دروازہ نہیں کھول رہی بلکہ اس کے کمرے میں بلکل سناٹا ہے مجھے لگ رہا ہے وہ سوگئی ہے وہ ہمیشہ ایسے کرتی ہے ماہم کی آواز میں غصہ تھا۔۔۔،

نہیں مما میں تیار ہوں مما۔۔۔۔ دروازہ کھولو اب باقائدہ وہ رونے لگی اس کی آواز باہر کیوں نہیں جارہی تھی نا ہی اس کا دروازہ پیٹنا باہر محسوس ہو رہا تھا۔۔

اس کے روم میں تیز ہوائیں چلنے لگی اس کی کھڑکیوں کے پردے اوپر کی طرف اوڑھنے لگے اس نے ڈر کے پیچھے دیکھا۔۔۔ اس کے روم کی لائٹ بھی بند ہو چکی تھی۔۔۔مما!!!!!!!ماہم!!!!!!! دروازا کھولو۔۔۔۔مما نایاب نے ڈرتے ہوئے پیچھے دیکھا پھر واپس تیز تیز دروازہ پیٹنے لگی۔۔

اگر وہ سو گئی تو چھوڑو ہم چلتے ہیں شازیہ نے ماہم کی طرف دیکھا۔۔۔مما میں نے اسے کتنا منایا تھا پر یہ لڑکی پتا نہیں کیا چاہتی ہے ماہم کی آواز میں حد سے زیادہ غصہ تھا اس نے ایک نظر نایاب کے روم کے دروازے کو دیکھا جہاں مکمل خاموشی تھی اس نے لاک سے جھانکنے کی کوشش کی پر اندر کمرے کی لائٹ بھی بند تھی۔۔۔چلو مما پاپا گاڑی میں ویٹ کر رہے ماہم نے ایک آخری نظر اس کے دروازے کو دیکھا اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔

نہیں ماہم۔۔۔میں یہی ہوں مجھے اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤ۔۔۔۔ماہم پلزز مما!!!!! نایاب نے روتے ہوئے واپس دروازہ بجایا پر باہر سے وہ لوگ جا چکے تھے وہ روتے روتے دروازے کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئی۔۔

ایک دم سب ہوائیں رک گئیں،کمرہ ایک دم روشن ہو گیا، نایاب نے ڈرتے ہوئے چاروں اور دیکھا اور خود میں سیمٹتے ہوئے دروازے سے لگتی ہوئی اور کونے میں ہو گئی۔۔،

کون ہو تم۔۔۔؟ مجھے۔۔۔۔کیوں۔۔۔تنگ کر رہے ہو؟؟؟نایاب نے روتے ہوئے پورے روم میں دیکھا جہاں مکمل خاموشی تھی۔۔۔۔

اب کہاں چلے گئے تم مجھے جواب چاہیے کون ہو تم۔۔؟؟؟نایاب نے روتے ہوئے چیخ کر کہا۔۔!!!اس کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا وہ اپنا چہرا گٹھنے میں چھپا کر رونے لگی۔۔۔

نایاب نے روتے روتے سامنے دیکھا تو ایک دم چونک گئی سامنے شیشے پر اس کے لیے ایک جملہ لکھا گیا تھا
don’t cry i am with you
نایاب نے کپکپاتے لہجے سے وہ جملہ پڑھا۔۔

خود مجھے۔۔۔ڈراتے ہو۔۔۔خود مجھے رونے سے منا۔۔۔کرتے ہو۔۔۔مجھے لگتا تھا میں پاگل ۔۔۔ہوگئی ہوں۔۔۔پر تم مجھ سے بڑے پاگل لگتے۔۔۔ہو۔۔۔ نایاب نے روتے ہوئے غصے سے کہا

پاگل نہیں دیوانہ۔۔۔۔۔
شیشے پر اس جملے کی جگہ اب نیا جملہ آگیا تھا نایاب نے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے غور سے جملہ پڑھا۔۔۔

دیوانہ۔۔۔۔

نایاب ڈرتے ڈرتے کھڑی ہوئی وہ شیشے کے پاس آئی اس سے پہلے وہ جملہ غائب ہو چکا تھا۔۔۔۔

نایاب نے روم میں چاروں طرف دیکھا نا اب ہوائیں چل رہی تھی نا ہی اس کا کمرا لاک تھا اور نا ہی لائٹ بند تھی مطلب وہ اسے جانے دینے سے روکنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اب نایاب اس کا مطلب سمجھنے لگی تھی اس نے افسوس سے خود کو شیشے میں دیکھا اور بستر پر لیٹ گئی۔۔۔

ٹھنڈ بہت بڑھ گئی تھی پھر بھی وہ بغیر کچھ اوڑھے لیٹی ہوئی۔۔۔ چھت کو گھور رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کون اس کے ساتھ یہ سب کر رہا تھا۔۔

کسی نے آرام سے بلینکٹ اس کے وجود پر ڈالا نایاب نے چونک کر سامنے دیکھا اور جلدی سے بلینکٹ کو دور پھینک کر اٹھ کے بیٹھ گئی۔۔۔نہیں چاہیے مجھے یہ کمبل۔۔۔۔نایاب نے روم میں دیکھتے ہوئے چیخ کر کہا پر ایسا لگ رہا تھا وہ پاگل ہو گئی ہے کیوں کے روم بلکل خالی تھا۔۔۔

وہ واپس لیٹ کر چھت کو گھورنے لگی کچھ دیر میں اسے پتا ہی نہیں لگا کب اس کی آنکھ لگ گئی وہ کمبل زمین سے ہوا میں آیا اور ہوا سے واپس نایاب کے وجود پر اب وہ واپس کمبل دور نہیں پھینک سکی کیوں کہ وہ گہری نیند سو چکی تھی

کس نے نرمی سے نایاب کے گالوں کو صاف کیا جہاں آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے۔۔۔۔
وہ اسے کیسے بتاتا وہ کون ہے۔۔۔۔۔!!
وہ اسے کیسے بتاتا وہ اس کے لیے کیا ہے۔۔۔!!
وہ اسے کیسے بتاتا وہ اسے کتنا چاہتا ہے۔۔۔!!
وہ اسے کیسے بتاتا وہ اس کا شوہر ہے۔۔۔۔۔!!!
وہ لڑکی اس کی جان اس کی بیوی تھی جسے وہ چاہ کر بھی نظر نہیں آ سکتا تھا۔۔۔

اس دیوانے نے پیار سے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے۔۔

تو جہاں ہو یہ دیوانہ وہاں پہنچے گا۔۔۔۔
شمع جہاں ہوگی پروانہ وہاں پہنچے گا۔۔۔۔۔

*****
جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *