CrazyLatestRomanticSabahat Khan

Deewana by Sabahat Khan Episode 6

Advertisement

Deewana by Sabahat Khan Episode 6

دیوانہ
صباحت خان
قسط نمبر 6

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟؟ دو ہفتے پہلے ہی میں یہاں سے گیا ہوں اور اب آپ مجھے کہہ رہے یہاں کوئی نہیں رہتا شیری نے غصے سے اس چوکیدار کو دیکھا جو اسے گھر کے اندر جانے نہیں دے رہا تھا

دیکھیں صاحب مجھے یہاں پولیس والوں نے کھڑا کیا ہے اور یہ گھر بھی اب ان لوگوں کی حراست میں ہے باقی مجھے کچھ نہیں پتا چوکیدار نے پان چباتے ہوئے ایک بار پھر وہ ہی بات دھرائی جو وہ پیچھلے دس منٹ سے بول رہا تھا

جو یہاں شہرازی صاحب اور ان کی مسزز تھی وہ لوگ کہاں گئے اتنا تو پتا ہوگا آپ کو ان کی ایک بیٹی بھی تھی شہری نے اب کے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا وہ صرف پندرہ دن بعد واپس آیا تھا اور ان پندرہ دنوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا یہ دل بار بار نین کو دیکھنے کی ضد کر رہا تھا اور اس سنگ دل کا کچھ آتا پتا ہی نہیں تھا۔۔

صاحب میں نے جو آس پاس کے لوگوں سے سنا ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کے اس گھر میں جو آدمی عورت رہتے تھے کسی نے بہت بے رحمی سے ان کو مار دیا چوکیدار نے اس کے کان میں رازداری سے کہا۔۔

کیا۔۔۔۔؟۔!! ایسا کیسے ہو سکتا ہے انکل انٹی او نو شیری نے غصے سے اپنی آنکھیں بند کی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اچانک یہ سب کیا ہو گیا۔۔۔جب اس نے دوبارا آنکھیں کھولی تو اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھی جس میں آنسوؤں کی نمی بھی شامل تھی۔۔

اور۔۔۔ان۔۔کی بیٹی۔۔!!؟ شیری نے دل پر پھتر رکھ کر وہ سوال بھی کر لیا پر اس کا دل کہہ رہا تھا وہ زندہ ہے۔۔۔
جی صاحب بیٹی بھی تھی ان کی پر اس کا کچھ معلوم نہیں وہ کہاں ہے شاید جس نے اس کے ماں باپ کو مارا وہ ہی اٹھا کے لے گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی شیری نے آگ بگولہ ہوتے ہوئے اس کا گریبان پکڑا اس کی بیوی اتنے دن سے لاپتہ تھی اور اسے کسی نے خبر تک نہیں دی۔۔۔

صاحب ہم غریب پر کیا غصہ کرتا ہے جا کے پولیس سے پوچھ ہم نے تو جو سنا تھا وہ بتا دیا چوکیدار نے جلدی سے بیچارگی سے کہا اسے اس شخص سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔

تجھے اور پولیس کو سب کو دیکھ لوں گا اگر اس لڑکی کو کچھ ہوا تو اس کا گریبان چھوڑ کر اس نے آخری نظر اس گھر پر ڈھالی اور اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔۔۔

سن مومن۔۔مجھے ایک کام ہے تو کہاں ہے بتا میں ابھی آرہا ہوں۔۔۔۔چل ٹھیک ہے میں تیرے گھر آرہا ہوں سیدھا۔۔۔۔شیری نے موبائل جیب میں ڈھالا اب اس کا رخ مومن کے گھر کی طرف تھا اس سب میں اگر کوئی اس کی مدد کر سکتا تھا وہ صرف مومن تھا۔۔۔

*************

آ رہا ہوں بھئی کیا میرا دروازا ہی توڑ دو گے ۔۔!! مومن ہاتھ میں چاکو پکڑے دروازے کی طرف آیا جیسے ہی اس نے دروازا کھولا شیری اسے ایک طرف کرتے ہوئے اندر آگیا۔۔

کیا ہوا تیرے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔۔؟؟ مومن نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر سوال کیا
مجھے تیری مدد کی ضرورت۔۔۔۔۔!!کیوں کروں تیری مدد میں!! تو نے میرا فون اٹھایا۔۔؟؟مومن نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے لڑاکا انداز میں کہا اس وقت وہ ٹراؤزر شرٹ میں رف سے ہلیے میں موجود تھا۔۔

وہ میں مصروف تھا اس لیے تیری کال نہیں اٹھا سکا اب تو میری بات سن لے شیری نے سوفے پر بیٹھتے ہوئے غصے سے اسے دیکھا

ایک بار نہیں میں نے چار بار فون کیا ہے ایسی بھی کیا مصروفیات کے تو میرا فون نہیں اٹھا سکتا مومن اسے بخشنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا
دیکھ مومن۔۔!! جب سے تجھے دیکھ ہی تو رہا ہوں اور کیا کروں مومن نے کچن میں جاتے ہوئے پھر سے اس کی بات کاٹی۔۔۔

مجھے بہت ضروری کام ہے شیری غصے میں اس کے پیچھے آیا
تو یہ بتا بریانی کھائے گا؟؟ میں خود بنا رہا ہوں آج سنڈے تھا سوچا خود ہی کچھ اچھا سا بناؤ مومن نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے مزے سے کہا

ٹھیک ہے تو بنا بریانی میں یہاں سے جا رہا ہوں شیری نے سائڈ میں پڑا ہوا گلاس زمین پر پھینکتے ہوئے غصے سے کہا اسے پتا تھا مومن اسے جان کر کے تپا رہا تھا کیوں کے اس نے مومن کا فون نہیں اٹھایا۔۔

اچھا اچھا ناراض نہیں ہو بول میں سن رہا ہوں پر تجھے میرا اتنا مہنگا گلاس توڑنا نہیں چاہیے تھا مومن نے افسوس سے فرش پر بکھرے ہوئے کانچ کو دیکھا۔۔۔

وہ جو اس دن لڑکی تھی میرے ساتھ جب میں نے تیری ہیلپ لی تھی شیری نے غصہ ایک طرف رکھ کر اپنی بات شروع کی اسے پتا تھا اس کام میں بس مومن ہی اس کی مدد کر سکتا تھا۔۔
ارے بھابھی کی بات کر رہا ہے نا مومن نے ایک دم تالی مارتے ہوئے کہاں جیسے اسے وہ پورا قصہ یاد آ گیا ہو شیری نے پھر سے اسے غصے سے دیکھا۔۔۔

اچھا اچھا بھابھی نہیں بولوں گا سوری۔!! مومن کو لگا اس کے پھر سے بھابھی بولنے پر شیری کو غصہ آیا ہے۔۔۔

وہ تیری بھابھی ہی ہے اب آگے بھی میری بات سن لے شیری نے اس کے ہاتھ سے چُھری لے کر ایک طرف رکھی اور اسے لیے کچن سے باہر آگیا۔۔

کیا مطلب ہے تیرا۔۔!؟ تو نے شادی کر لی۔۔۔؟؟ اس بار مومن نے غصے سے اپنا ہاتھ چھوڑوایا۔۔
وہ مجبوری تھی یار میں تجھے بعد میں سب بتا دوں گا شیری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔۔

بعد میں بتا دونگا کا کیا مطلب۔۔؟؟ ایک تو شادی کرلی اوپر سے اپنے اکلوتے دوست کو نہیں بلایا میرا فون بھی تو نہیں اٹھاتا اور کام کے وقت پہنچ جاتا کے ابھی کے ابھی میرا کام کر۔۔۔۔ میں نے سنا تھا ایک وقت آئے گا جب دنیا میں دوست مطلبی ہوں گے پر مجھے نہیں پتا تھا وہ وقت آ چکا ہے مومن کی دوہایا عروج پر تھی۔۔

وہ اپنا سر پکڑ کر وہی صوفے پر بیٹھ گیا وہ کس انسان سے اپنا سر پھوڑنے آگیا تھا
کمینا، گدھا، الو کا پھٹا، بے وقوف، شیری نے کھڑے ہوتے ہوئے غصے سے مومن کی طرف دیکھا۔۔

کون میں۔۔؟؟ تو مجھے گالیاں دے رہا مومن نے منہ کھولے اس کی طرف دیکھا۔۔
نہیں میں گدھا،میں کمینا،میں الو کا پھٹا، میں بے وقوف، جو تیرے پاس مدد کے لیے آیا تو بریانی بنانے کے ہی قابل ہے تجھے پولیس میں جس نے ڈالا وہ مجھ سے بھی بڑا بے وقوف شیری نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا یہ ان دونوں کا آج کا نہیں تھا مومن ہمیشہ اسے ایسے ہی تپاتا تھا اور مزے کی بات ہر بار شیری تپ بھی جاتا تھا۔۔

میں جا رہا ہوں مجھے اب تیری مدد نہیں چاہیے وہ غصے سے بولتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

نایاب شابان شاہ پولیس کی کسٹڈی میں ایک ہاسپیٹل میں ایڈمٹ ہے جس کا ایڈریس صرف میرے پاس ہے مومن کی آواز پر شیری نے ایک دم موڑ کر اسے دیکھا۔۔

کون۔۔۔کون سا ہاسپیٹل جلدی بتا۔۔۔شیری واپس اپنا غصہ بھول کر اس سے سوال کر رہا تھا۔۔

جو میرے گھر کے بلکل پاس ہے وہ ہی ہاسپیٹل۔۔۔۔یہ بات بتانے کے لیے میں پیچھلے چار دن سے تجھے کال کر رہا ہوں جو تو نے اٹھائی نہیں۔۔۔! اب کے مومن نے بھی سریس تاثر کے ساتھ ہی جواب دیا کیوں کے وہ اپنے دوست کی آنکھوں میں اس لڑکی کے لیے بے انتہا پیار دیکھ چکا تھا۔۔

تو۔۔۔لوگ یہ کیوں کہہ رہے کہ نین کا کسی کو نہیں پتا شیری نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا۔۔
کیوں کے اس کے ماں باپ کو جس نے بھی مارا ہے وہ لوگ اسے بھی مارنا چاہتے ہیں اسی لیے یہ خبر اندر ہی ہے چار دن پہلے جب میں ہاسپیٹل گیا تو میں اس لڑکی کو دیکھ کر حیران ہوا جو اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔۔
میں جان گیا تھا یہ وہ ہی لڑکی ہے تجھے بھی بتانا چاہتا تھا پر تیرے پاس ٹائم نہیں تھا مومن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔
شیری کی آنکھیں نم ہو چکی تھی اس کی بیوی اس کی جان اتنے دن سے ہاسپیٹل میں تھی اور وہ وہاں اپنے کاموں میں پاگل ہو رہا تھا اسے ایک بار بھی اس معصوم کا خیال نہیں آیا شیری کو خود پر غصہ آیا۔۔

میں جا رہا ہوں نین سے ملنے شیری اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے واپس دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
ایسے تجھے ملنے نہیں دیں گے مجھے ساتھ چلنا ہوگا مومن نے واپس کچن میں جاتے ہوئے کہا۔۔۔

ہاں چل تو جلدی سے چینج کر لے شیری کی بات پر مومن نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو۔۔۔
میری آج چھٹی ہے اور میری بریانی بھی بیچ میں ہے میں نہیں جاؤں گا مومن نے فوراً انکار کیا۔۔

میں تجھے جان سے مار دوں گا اب اگر تونے یہاں کھڑے ہو کر مجھ سے فضول بحث کی شیری نے اسے انگلی اٹھا کر وارن کیا جس پر مومن نے ہونٹ دبا کر اپنی ہنسی روکی۔۔

**************

میں یہ دوائی نہیں لوں گی۔۔!! اس نے نرس کے ہاتھ سے ٹرے لے کر زور سے زمین پر پھینکی۔۔۔ میرے پاپا میری مما کو بلاؤں ورنہ میں کوئی دوائی نہیں لوں گی ایسا لگتا تھا وہ برسوں کی بیمار ہے آنکھوں کے نیچے ہلکے اور رو رو کے سوجی ہوئی آنکھیں اس کے اندر پل رہے درد کا پتا دے رہی تھی۔۔۔

آپ پلیز یہ انجیکشن لگا لیں نرس سرنج بھر کر اس کے پاس آئی اس لڑکی نے ان کے سر میں درد کر رکھا تھا پر اس لڑکی کو لے کے پولیس کی خاص انسٹرکشن تھی جس کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی ہاسپیٹل کے عملے کو اس پاگل لڑکی سے پیار سے بات کرنی پڑتی تھی۔۔

نہیں نہیں نہیں مجھے میرے پاپا مما چاہیے میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے یہ نہیں لگوانا انجیکشن کو ہاتھ سے دور کرتے ہوئے اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔
اس لڑکی نے تو ناک میں دم کر دیا ہے جا تو جاکے وارڈ بوائے کو بلا کر لا وہ ہی اسے پکڑے گا اس نرس سے زمین پر سے سامان اٹھاتی ہوئی دوسری نرس کو کہا۔۔۔

مجھے میرے پاپا کے پاس جانا ہے پلیز مجھے میرے گھر جانا وہ ان کی باتیں سن کر رونے لگی تھی اسے ان سب لوگوں سے خوف محسوس ہوتا تھا۔۔

مر گئے ہیں تمہارے ماں باپ اب ہمارے سر میں درد کرنا بند کرو اس نرس نے چڑتے ہوئے اسے دیکھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ایسا۔۔۔نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔میرے پاپا مجھ سے۔۔۔۔بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔اتنا سارا پیار اس نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بڑا کر کے بتایا۔۔
اور میری مما ۔۔۔۔۔میری مما کی تو مجھ میں جان ہے۔۔۔وہ مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔نہیں جاسکتی۔۔۔رو رو کے اس کی ہچکیاں بند چکی تھی اس کا دماغ یہ بات ایکسیپٹ نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔

پاپا۔۔!! مما۔۔!! اپنی گڑیا کے پاس آجاؤ واپس۔۔۔پاپا۔۔۔!! مما۔۔!! اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا پر اسے پروا نہیں تھی جب سے اسے ہوش آیا تھا یا تو وہ چیخنے چلانے لگتی یا پھر رونے لگتی اپنے ماں باپ کو پکارنے لگتی اب بھی رو رو کے اس کی ہچکیاں بند چکی تھی۔۔

پکڑو اس لڑکی کو تاکہ میں اسے انجیکشن لگاؤں نرس نے وارڈ بوائے کو دیکھتے ہی کہا جسے دیکھ کر نین بیڈ پر ہی ہیچھے ہونے لگی۔۔۔نہیں۔۔۔مجھے درد ہوتا ہے۔۔۔مجھے یہ نہیں لگاؤ نین روتے ہوئے نہ میں سر ہلا رہی تھی اس وقت وہ معصوم سی بچی لگ رہی تھی جسے انجیکشن سے ڈر لگتا تھا۔۔۔

کھڑے کھڑے کیا دیکھ رہے ہو پکڑو اسے نرس نے غصے سے ایک بار پھر کہا۔۔۔
رک جاؤ۔۔!!مومن کی آواز پر نرس نے پیچھے موڑ کر دیکھا جہاں مومن اسے غصے سے دیکھ رہا تھا اور شیری۔۔۔!! وہ تو بس اپنی نین کو دیکھ رہا تھا جس کی نظریں اب تک انجیکشن پر ٹکی یوئی تھی اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔۔۔۔

تم لوگ باہر چلو میں بات کرتا ہوں تم سب سے مومن کی دھاڑ سے جہاں نرس اور وارڈ بوائے باہر بھاگے وہی نین اچھل کر پیچھے ہوئی۔۔

ان لوگوں کے باہر جاتے ہی مومن نے اپنے دوست کی طرف دیکھا جو ایک ٹک نین کو دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں اس وقت پیار محبت جزبات دکھ درد پچھتاوا سب موجود تھا مومن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور خود بھی باہر چلا گیا۔۔۔

شیری قدم قدم چل کر اس کے پاس آیا نین بیڈ سے بلکل چپک گئی اس نے اب تک نظریں نہیں اٹھائی تھی اس کی آنکھوں میں ڈر خوف سب موجود تھا۔۔

نین۔۔!! شیری نے کانپتی ہوئی آواز میں اسے آواز دی اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ وہی لڑکی ہے جو زندگی کو کیسے کھل کر جیتی تھی اور آج بے حد کمزور بیمار سی لگ رہی تھی ایسا لگتا تھا اس لڑکی کے اندر اب جینے کی چاہ ہی نہیں ہے۔۔

اپنا نام سن کر اس نے نظریں اٹھائی۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک وہ اسے گھورتی رہی ایسا لگ رہا تھا وہ اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔
شی۔۔۔شیری۔۔۔۔۔نین نے آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسوؤں سے اسے دیکھا وہ اسے بھولی نہیں تھی بلکل نہیں بھولی تھی۔۔

شیری کی جان۔۔۔۔۔شیری نے ایک دم اسے سینے سے لگا لیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا جس جس نے اس کی جان کو تکلیف دی ہے وہ ہر اس شخص کو سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔

شیری۔۔۔مما۔۔۔پاپا۔۔۔شیری یہ سب۔۔۔۔یہ سب گندے۔۔۔۔اس کے سینے سے لگی وہ سب کی شکایتیں کر رہی تھی۔۔۔

مما۔۔۔۔۔پاپا بھی نہیں آئے۔۔۔۔اپنی گڑیا کو لینے۔۔۔۔سب سے ناراض ہوں میں۔۔۔۔میں بات بھی نہیں کروں گی۔۔۔۔۔وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اسے سب بتا رہی تھی۔۔۔

یہ سب مجھے مارتے ہیں۔۔۔سوئی بھی ۔۔۔۔سوئی بھی لگاتے۔۔۔وہ اپنی تھوڑی اس کر سر پر رکھے اسے اپنی بانہوں میں بھرے اس کی سب شکایتیں سن رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھی پر آنکھوں سے آنسوں گر رہے تھے جو نین کے بالوں میں جزب ہو رہے تھے اس لڑکی میں شابان شاہ کی جان تھی۔۔۔

آپ۔۔۔آپ بھی نہیں آئے۔۔۔۔کوئی نہیں آیا۔۔۔۔آپ بھی اچھے نہیں۔۔۔نین نے اس سے دور ہوتے ہوئے کہا اسے یاد آگیا تھا وہ اتنے دن سے اکیلی ہی سب دکھ برداشت کر رہی تھی اور وہ شخص جسے اس کے باپ نے اس کا لائف پاٹنر بنایا تھا اسے لینے ہی نہیں آیا۔۔۔

مجھے معاف کردو یار پر پلیز مجھ سے دور نہیں جاؤ شیری نے اسے کھینچ کر پھر سے اپنے سینے سے لگا لیا وہ اپنی جان سے اب اتنی سی دوری بھی برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔

آپ۔۔کیوں۔۔۔نہیں آئے۔۔۔۔۔نین اس کے سینے میں چہرہ چپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اتنے دن بعد اسے کوئی اپنا ملا تھا جس سے وہ اپنا درد بانٹ سکتی تھی آپ کیوں نہیں آئے شیری۔۔۔۔۔آپ اچھے نہیں ہو۔۔۔۔اس کے سینے سے لگی ہوئی وہ اسی کی شکایت کر رہی تھی۔۔۔

مجھے معاف کردو ہنی۔۔۔۔تم یہاں اتنی تکلیف میں تھی اور میں انجان رہا مجھے معاف کردو شیری نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔۔۔تم میں شابان شاہ کی جان ہے تم میری زندگی ہو میں اب کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا چاہے زندگی میں کیسا بھی موڑ آئے اپنے شابان کو ہمیشہ تم اپنے ساتھ پاؤ گی۔۔۔
شیری نے اس کے آنسوؤں کو اپنے ہونٹوں سے چنا نایاب کی آنکھیں بند ہو گئی تھی وہ اپنا رونا بھول کر شابان شاہ کی شدتیں محسوس کر رہی تھی۔۔۔

میری زندگی میں تم ہو
میری دھڑکن میں تم ہوں
میں جو سانس لے رہا ہوں
ان سانسوں میں بھی صرف تم ہو
میں وعدہ کرتا ہوں میری جان
اگر کبھی ہوئی یہ روح جسم سے جدہ
اس وقت بھی میں تم سے کروں گا وفا
نہیں چھوڑوں گا تمہیں ایک پل بھی تنہا
میری روح بنے گی سایہ تمہارا
اگر میں نا رہا
اگر میں نا رہا

شابان شاہ نے اسے واپس خود میں بھینچتے ہوئے کہا اس کی حالت دیکھ کر وہ سوچ چکا تھا اب وہ اس لڑکی کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا
کبھی نہیں۔۔۔!!

پھر ایسا کیا ہوا جو دونوں ہوئے جدا
کیا قسمت نے کوئی کھیل ان کے ساتھ ہے کھیلا

*************

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *