CrazyLatestRomanticSabahat Khan

Dewana By Sabahat Khan (Episode 5)

Advertisement

Dewana By Sabahat Khan (Episode 5)

#دیوانہ
#صباحت_خان
#قسط نمبر 5

ان کے نکاح کو دو دن ہو چکے تھے جس دن ان دونوں کا نکاح ہوا اسی رات کو شیری کو دوسرے شہر کام کے سلسلے میں جانا پڑا اور اب تک اس کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ نایاب کے پیپر بھی اب ختم ہو چکے تھے اور وہ گھر میں رہ رہ کے بور ہو رہی تھی پر شہرازی صاحب اسے کہی باہر جانے ہی نہیں دیتے تھے۔۔۔

مما بس بہت ہو گیا یار پلیز مجھے جانے دو میری بیسٹ فریڈ کی برتھڈے پارٹی ہے۔۔۔ میں گھر میں بند کیوں رہوں آپ یہ بھی نہیں بتا رہی۔۔۔۔ آپ پلیز مجھے اجازت دے دو میں جلدی واپس آ جاؤں گی پکا وعدہ صالحہ کے گلے میں باہیں ڈال کر وہ بہت لاڈ سے بول رہی تھی بلکہ یہ کہوں کے مکھن لگا رہی تھی تو وہ بھی غلط نہیں ہوگا۔۔۔

تم کتنا بھی کہو میں اجازت نہیں دوں گی تمہارے پاپا سختی سے بول کر گئے ہیں کے نین کو کہی باہر جانے نہیں دینا ہے اب بے شک تم مجھے کتنا بھی مکھن لگاؤ صالحہ نے اس کا ہاتھ اپنی گلے میں سے نکال کر مسکراتے ہوئے کہا آخر وہ بھی اس کی ماں تھی۔۔۔

پاپا کو پتا بھی نہیں چلے گا میں جلدی سے جا کر آ جاؤں گی نین نے ان کے سامنے آتے ہوئے معصوم سا منہ بنایا۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم تیار ہو جاؤ میں تمہارے پاپا کو بلاتی ہوں ان کے ساتھ ہی جانا ٹھیک ہے صالحہ نے پیار سے اپنا ہاتھ اس کے گال پر رکھا۔۔
کہی پاپا نے منا کر دیا تو۔۔؟؟نین نے فکر مندی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔۔

اس بات کی تم فکر نہیں کرو میں انہیں منا لوں گی صالحہ کی بات سن کر نین نے جھٹ سے ان کے گال پر پیار کیا اور تیار ہونے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔۔

پاگل لڑکی۔۔۔!! صالحہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی شہرازی صاحب کو کال کرنے لگی۔۔۔

کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنے لیے ایک ڈریس نکالا جو ایک بلیک کلر کی فراک تھی جس پر بہت خوبصورتی سے گولڈن کام ہوا تھا نہا کر وہ جلدی جلدی تیار ہوئی اپنی دوست کی پارٹی میں جانے کے لیے وہ بہت زیادہ آکسائیڈ تھی

وہ اپنے بال ہی سلجھا رہی تھی جب اسے باہر عجیب سی آوازیں آئی وہ باہر جاتی اس سے پہلے ایک دم صالحہ ہڑ بڑا کر اندر آئی۔۔۔۔
کیا ہوا مما یہ باہر کیسی آوازیں آ رہی ہیں اس نے پریشانی سے اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔

بیٹا تم کہی چھپ جاؤ ایسا کرو تمہارے روم میں جو اسٹور ہے اس میں ایک صندوق ہے تم جلدی سے جاؤ اس میں چھپ جاؤ جلدی کرو صالحہ اسے پکڑ کر اسٹور کی طرف لے جانے لگی۔۔

پر مما ہوا کیا یے مجھے بتاؤ تو سہی اسٹور میں پہنچ کر اس نے صالحہ سے اپنا ہاتھ چھوڑوایا۔۔۔
تم میری بات کیوں نہیں سمجھ رہی ہو وقت نہیں ہے صالحہ نے اس کی طرف دیکھا پھر سائڈ میں رکھا ہوا واس اٹھایا۔۔
مجھے معاف کر دینا پر یہ میں تمہارے لیے کر رہی ہوں نین صالحہ کی بات سمجھ پاتی اس سے پہلے صالحہ نے واس اس کے سر پر مارا جس سے وہ بے ہوش ہو کر نیچے گر گئی۔۔۔

*****

اب یہ کہاں گئے۔۔؟؟چائے بنا کر وہ لاؤنچ میں آئی تو ساحل وہاں سے غائب تھا۔۔۔
ان کے روم میں دے کر آوں۔۔؟؟ اس نے تھوڑی دیر سوچا پر اس وقت ساحل کے کمرے میں جانا ٹھیک نہیں لگا ماہم اور مما بھی گھر پر موجود نہیں تھی وہ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے گارڈن میں آگئی۔۔۔

موسم بہت ٹھنڈا تھا ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹھنڈ بھی بڑھ رہی تھی جھولے پر بیٹھ کر اس نے گرم گرم چائے کو اپنے ہونٹوں سے لگایا جب سے وہ ہاسپیٹل سے آئی تھی اسے اپنے اندر ایک خالی پن سا لگتا تھا ایسا لگتا تھا کوئی بہت اہم چیز ہے جو اسے یاد نہیں پر یہ خالی پن کیوں تھا اس کا جواب نین کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔۔۔

چائے پی کر اس نے کپ وہی جھولے پر رکھا جب اس کی نظر سامنے کھڑی ہوئی گاڑی پر پڑی۔۔۔ماہم اور مما بھی نہیں ہیں کیوں نا میں گاڑی لے کر باہر گھوم آؤں۔۔؟اس نے خود سے ہی سوال کیا ہاسپیٹل سے آنے کے بعد وہ کہی باہر نہیں گئی تھی اسے اکیلے رہنا پسند تھا پر جب اس کا دل اداس ہوتا تھا تو وہ گاڑی لے کر نکل جاتی تھی اگر ماہم یا مما گھر پر ہوتی تو اسے کبھی باہر نہیں جانے دیتی یہی سوچ کر وہ جلدی سے اندر گئی۔۔۔ ایک گرم شال اور گاڑی کی چابی لے کر باہر آئی۔۔

سر پر ڈوپٹہ لے کر اس نے شال اپنے ارد گرد لپیٹ لی اور گاڑی آگے بڑھا دی اسے تھوڑی دیر کہی سکون والی جگہ جانا تھا جیسے جیسے شام ڈھل رہی تھی ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔۔

اس نے ایک پارک کے پاس گاڑی روکی وہ بہت خوبصورت پارک تھا جہاں ایک دو لوگوں کے علاوہ صرف ہریالی تھی۔۔۔
وہ وہاں سفید کلر کی بینچ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ ایسا کیا تھا میری زندگی میں جو مجھے یاد نہیں؟ اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے سوچا سامنے ہی ایک بچا جھولے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کی ماں ہنستے ہوئے اسے جھولا دے رہی تھی نایاب کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی پھر اس نے دوسری طرف دیکھا جہاں کچھ چھوٹی عمر کے لڑکے فٹبال کھیل رہے تھے۔۔۔

نایاب گہری سانس لے کر اب دوسری طرف دیکھنے لگی۔۔۔شیری بیٹا گر جاؤ گے۔۔۔۔نایاب نے ایک دم سامنے دیکھا جہاں وہ بچا اب بھاگ رہا تھا اور اس کی ماں اس کے پیچھے تھی۔۔۔
رکو شیری بیٹا۔۔۔۔وہ بچا بھاگتا ہوا نایاب کی ہی طرف آرہا تھا۔۔۔اسے ایسا لگا یہ نام اس کے سر پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہا ہے۔۔۔

میں نے منا کیا تھا نا شیری بھاگو نہیں اس کی ماں نے اسے پکڑ کر ڈانٹا نایاب نے اپںے دونوں ہاتھ اپنے کان پر رکھ لیے اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔۔

شیری۔۔۔!! اس کا سر گھومنے لگا اس کے ہونٹوں سے بار بار شیری کا نام ادا ہو رہا تھا وہ وہی بینچ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔

شیری۔۔۔۔۔۔!! بے ہوش ہونے سے پہلے اس کے ہونٹوں نے ایک بار پھر شیری کا نام لیا۔۔۔
مغرب کی اذان ہو چکی تھی سب لوگ اپنے گھر کو جا رہے تھے پر وہ وہاں ہوش و خرد سے بیگانی تھی۔۔۔

پاگل لڑکی۔۔۔!!اس نے پیار سے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔۔۔میں تمہیں اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا نین پلیز مجھے یاد کرو میں تمہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا بلکہ ہر مصیبت سے تمہیں بچانا چاہتا ہوں شابان شاہ نے اسے پیار سے گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر لٹایا کچھ دیر میں ہی وہ اپنے گھر تھی۔۔۔

ساحل اپنے کمرے کی کھڑی پر کھڑا تھا جب اس نے سامنے گاڑی رکتی ہوئی دیکھی پہلے گاڑی کا آگے کا دروازا کھلا پر وہاں سے کوئی اترا نہیں پھر پیچھلی سیٹ کا دروازا کھلا اور اس میں سے نایاب باہر آئی پر حیرت کی بات یہ تھی وہ ہوا میں موجود تھی ایسا لگتا تھا کسی نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا ہوا ہے ساحل نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا نایاب کے اندر جاتے ہی اس نے ڈر کے جلدی سے کھڑکی بند کردی۔۔۔
یہ لڑکی یقیناً کوئی جادوگرنی ہے ساحل نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا اسے اس عجیب لڑکی سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔

******

اسے جب ہوش آیا اس نے خود کو کسی ہاسپیٹل کے روم میں پایا اس نے دیکھا ایک نرس اس کے ہاتھ میں ڈرپ لگا رہی تھی اس نے اٹھنے کی کوشش کی پر سر میں بہت ٹھیس محسوس ہوئی اس نے واپس اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔آنکھیں بند کیے آخری منظر یاد کرنے کی کوشش کی جب صالحہ نے اس کے سر پر کچھ مارا تھا پر ماما ایسا کیسے کر سکتی ہیں نین کی آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے۔۔۔

میرے۔۔۔مما۔۔۔پاپا کہاں ہے۔۔؟؟ اس نے نرس کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا۔۔۔جی ہمیں نہیں پتا یہاں آپ کو پولیس لے کر آئی تھی اور وہ باہر ہی ہیں میں انہیں بتا دیتی ہوں کے اپ کو ہوش آ گیا ہے نرس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔

نرس کے جانے کے بعد اس نے پھر سے آنکھیں موند لی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔
نایاب شہرازی پولیس کی بھاری آواز پر اس نے اپنی آنکھیں کھولی سامنے ہی ایک انسپیکٹر تھا جس کے ساتھ لیڈیس انسپیکٹر بھی موجود تھی۔۔۔
میں یہاں کیسے آئی۔۔؟؟ میرے مما پاپا کہاں ہے۔۔؟؟ نایاب نے انسپیکٹر کو دیکھتے ہی سوال کیا۔۔۔

آئی ایم سوری نایاب شہرازی آپ کے والد اور والدہ کا تین دن پہلے انتقال ہو چکا ہے کسی نے ان کا خون کر دیا۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا ابھی تو کچھ دیر پہلے مما میرے ساتھ تھی نایاب ایک دم چیختے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی اسے انسپیکٹر کی بات پر یقین نہیں آیا۔۔

یہی سچ ہے آپ کو تین دن بعد ہوش آیا ہے آپ کی والدہ نے آخری سانسیں لیتے وقت ہمیں بتایا تھا آپ سٹور میں کسی صندوق میں بند ہیں ہم نے آپ کو وہی سے نکالا تھا آپ بہت زخمی تھی اس لیے آپ کو اسی وقت ہاسپیٹل ایڈمٹ کیا گیا انسپیکٹر نے بہت آرام آرام سے اسے ساری بات بتادی۔۔۔

نہیں۔۔۔مما۔۔!! پاپا۔۔۔!! آپ لوگ مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے م۔۔۔مما۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔نایاب بری طرح تڑپنے لگی۔۔۔
نرس جلدی سے انجیکشن لاؤ مریض کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر نے پولیس کو باہر بھیجا اور نرس سے انجیکشن منگوایا۔۔۔

مجھے میری مما کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔مما۔۔۔!! پاپا۔۔۔!! میرا آپ دونوں کے بغیر کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔مم۔۔۔مما۔۔۔۔ڈاکٹر نے تڑپتی ہوئی نین کے بازوں میں انجیکشن لگایا۔۔۔

مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔۔۔۔۔پا۔۔۔پا مجھے چھوڑ۔۔۔۔کر نہیں۔۔۔جاؤ مم۔۔۔۔ما۔۔۔۔غنودگی میں جاتے ہوئے وہ مسلسل اپنے ماں باپ کو پکار رہی تھی جو اسے چھوڑ کر بہت دور جا چکے تھے ۔۔۔۔

******

اسے بیڈ پر لٹا کر اس نے اچھے سے کمبل اسے اوڑھا آج دوسری بار وہ اسے سہی سلامت گھر لے کر آیا تھا۔۔۔۔

شابان شاہ نے پیار سے اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیرا وہ اسے کیسے بتاتا وہ جن لوگوں کو اپنا سمجھ رہی ہے وہی لوگ اس کے دشمن ہیں۔۔۔
اگر اس رات شابان شاہ اسے نہیں بچاتا تو گاڑی کے بریک فیل سے نایاب کب کی مر گئی ہوتی پر اس دیوانے نے ایسا ہونے نہیں دیا اسی رات گاڑی کا ٹائر بلاسٹ کر کے اسے سہی سلامت گھر لے آیا۔۔

تم بس میری ہو شابان شاہ کی اور میں تمہیں ہر مصیبت سے محفوظ کروں گا اس دیوانے نے پیار سے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے۔۔۔۔

تم پاگل نہیں ہو نین۔۔۔۔ نا ہی میں تمہیں ڈرانا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ پاستا اس دن میں نے وہاں سے غائب کیا تھا اگر ایسا نا کرتا تو تم وہ کھا کے موت کے قریب پہنچ جاتی اور میں ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔۔
جب تک ممکن ہوگا میں تمہاری حفاظت کروں گا اس دیوانے کی آنکھیں نم تھی آج وہ اسے سب بتانا چاہتا تھا جب کے جانتا تھا اس کی آواز اس کی بیوی تک نہیں جائے گی پھر بھی وہ اسے سب بتانا چاہتا تھا۔۔۔

میں تمہیں کبھی ڈرانا نہیں چاہتا پر میں ان لوگوں کے ساتھ تمہیں کہی بھیج نہیں سکتا مجھے ان لوگوں پر یقین نہیں ہے یہ لوگ کسی بھی طرح تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے یہ میں جانتا ہوں۔۔۔ اس دیوانے نے پیار سے نایاب کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیرا۔۔۔۔

شی۔۔۔شیری۔۔۔۔۔نایاب نیندوں میں اس کا نام پکار رہی تھی اس کے چہرے پر تکلیف صاف دیکھائی دے رہی تھی شابان شاہ نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوا۔۔۔
دن میں جس شخص کو وہ بھولے بیٹھی ہے
اس شخص کا نام وہ نیندوں میں روز لیتی ہے

شبان شاہ نے پیار سے اپنا ہاتھ اس کے چہرے پر پھیرا نایاب کا چہرہ پر سکون ہونے لگا تکلیف اس کے چہرے سے غائب ہو گئی وہ کروٹ بدل کر انجانے میں اس دیوانے کے اور پاس ہو گئی

ہم تڑپتے ہیں جن کی جدائی میں
وہ سو رہے ہیں ہماری پناہوں میں
کاش کے سمجھ پاتے ہمارے سنم
بہت تنہا ہیں ان کے بغیر ہم
نہیں کٹتے یہ دن اور یہ راتیں
کیوں تمہیں یاد نہیں میری جان
وہ قسمیں اور وہ تمہارے وعدے

****

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *