دیوانہ
صباحت خان
قسط نمبر 4
میری بچی صالحہ نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔نین ابھی کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھی صالحہ اس کے کمرے میں ہی بیٹھی تھی انہیں جب پتا لگا ان کی لاڈلی کے ساتھ آج کیا ہوا ان کو کسی طور سکون نہیں مل رہا تھا نین کو بلکل ٹھیک دیکھ کر ان کے سانس میں سانس آئی تھی اب تک وہ پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ آرام سے کمبل اوڑھ کر وہ اس کے کمرے سے باہر آئی ان کو رخ شیری کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔۔
اندر آئیں نا آنٹی۔۔۔۔!! صالحہ کو دروازے پر کھڑے دیکھ کر شیری نے اپنا لیپ ٹاپ سائڈ میں رکھا۔۔۔
صالحہ نے مسکرا کر شیری کی طرف دیکھا پھر کمرے کے اندر آکر وہی شیری کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔
بیٹا میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں آج پتا نہیں کیا ہو جاتا اگر تم نہیں ہوتے صالحہ کو سوچ کر بھی گھبراہٹ ہونے لگی اگر شیری آج اس کے ساتھ نہیں ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔
آنٹی اب آپ دونوں مجھے شرمندہ کر رہے ہیں انکل بھی شام سے بس یہی بات کر رہے ہیں آپ نے مجھے نین کی زمیداری دی تھی پھر اگر میں اس میں ناکام رہ جاتا مجھے بہت افسوس ہوتا۔۔۔
مجھے خوشی ہے میں نے آپ کا مان قائم رکھا شیری نے مسکرا کر صالحہ کو دیکھا۔۔۔
تم بہت اچھے ہو بیٹا۔۔۔۔!! صالحہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوئی روم سے باہر آگئی۔۔
پتا نہیں وہ لوگ کون تھے اب تک شہرازی صاحب کو اس بات کا معلوم نہیں ہوا تھا پر وہ اسی کوشش میں تھے شیری نے بھی اپنے دوست مومن کو اسی کام میں لگایا ہوا تھا۔۔۔
*************
بیٹا سب تیاری ہو گئی۔۔؟؟ نایاب ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے پاس جاتی اس سے پہلے ہی شازیہ باہر آ گئی۔۔
جی مما میں یہی پوچھ رہی تھی کھانا لگا دوں۔۔؟؟ نایاب نے اپنا ڈوپٹہ سہی کرتے ہوئے شازیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
جی بیٹا آپ کھانا لگاؤ میں سب کو بلاتی ہوں شازیہ بول کر اندر چلی گئی نایاب ہاں میں سر ہلاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
کچھ دیر میں کھانا لگ گیا سب اچھے ماحول میں کھانا کھانے لگے۔۔۔نایاب بیٹھنے لگتی شازیہ اسے کوئی نا کوئی کام بول دیتی جس کی وجہ سے وہ مہمانوں کے پاس سہی سے نہیں بیٹھ سکی۔۔۔
ساحل کی نظریں نایاب کے آس پاس ہی گھوم رہی تھی۔۔۔۔بیٹا کیا واپس جاؤ گے امریکا۔۔؟؟ منیب کی ماں نے ساحل کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔۔۔ نہیں آنٹی اب سوچ رہا ہوں یہی اپنا کام شروع کر لوں ساحل نے اس پر سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔۔۔
جاؤ بیٹھا میٹھا لے آؤ۔۔۔نایاب بیٹھتی اس سے پہلے شازیہ نے مسکرا کر ایک اور کام بول دیا نایاب ہاں میں سر ہلاتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔۔
سب لوگوں کے جانے کے بعد وہ برتن سمیٹنے لگی ماہم بھی اس کے ساتھ اس کی مدد کر رہی تھی شادی کی تاریخ اگلے ماہ کی رکھی گئی تھی جس پر سب راضی تھے۔۔۔
نایاب یار تم چائے بنا کر اوپر ساحل بھائی کو دے آؤ ماہم نے کچن میں برتن رکھتے ہوئے پلیز والا منہ بنا کر کہا۔۔
کیا مطلب۔۔؟؟ مہمان سب گئے نہیں۔۔؟؟ نایاب نے برتن چھوڑ کر ماہم کی طرف نا سمجھی سے دیکھا۔۔
مہمان تو چلے گئے پر ساحل بھائی یہی رکیں گے کچھ دن وہ کیا ہے نا ان کی فیملی امریکہ میں ہوتی ہے اس لیے پاپا کے کہنے پر وہ ہوٹل کی جگہ یہاں رک گئے ماہم نے برتن ایک طرف کرتے ہوئے ساری بات تفصیل میں بتائی۔۔۔
پر ساحل بھائی تو منیب بھائی کے دوست ہیں نا تو ان کے گھر پر رکنا چاہیے نایاب کو اس لڑکے کا یہاں رکنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔
ارے یار وہ منیب والوں کا گھر بن رہا ہے شادی سے پہلے وہ لوگ اپنے گھر میں کچھ کام وغیرہ کروا رہے ہیں۔۔۔ وہ لوگ خود ابھی کسی رشتےدار کے یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔۔۔اب تم سوال جواب ختم کرو اور چائے بنا کر دے آؤ مجھے منیب سے کچھ بات کرنی ہے ان کا بار بار فون آرہا ہے ماہم اسے بولتے ہوئے کچن سے نکل گئی نایاب کو نا چاہتے ہوئے بھی اس لڑکے کے کیے چائے بنانی پڑی۔۔۔
چولہے پر چائے پڑھا کر اس نے سارا کچن صاف کیا پھر کپ میں چائے انڈیل کر کچن سے باہر آئی۔۔۔اس کی نظر سامنے لٹکی ہوئی گھڑی پر گئی جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔۔۔۔
اس ٹائم ان کے کمرے میں جانا ٹھیک رہے گا۔۔۔؟؟ نایاب نے سوچتے ہوئے اوپر سیڑھیوں پر قدم رکھا۔۔۔میں ایسا کروں گی بس باہر سے پکڑا دوں گی۔۔۔
نایاب کمرے کے پاس پہنچی تو کمرہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔۔۔اس نے اندر جھانک کر دیکھا کمرہ بلکل خالی تھا۔۔۔نایاب نے کمرے کے اندر آکر آرام سے بیڈ کے پاس بنی سائیڈ ٹیبل پر چائے رکھی۔۔۔
ارے واہ۔۔۔!! نایاب چائے رکھ کر پیچھے مڑتی اس سے پہلے ساحل کی آواز اس کی کانوں میں پڑی۔۔۔اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا سامنے واشروم کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں بس یہ چائے رکھنے آئی تھی۔۔۔۔نایاب نے جلدی سے اس پر سے نظریں ہٹائی اور کمرے سے باہر جانے لگی۔۔۔۔
ارے ابھی تو آپ آئی ہیں کچھ دیر یہاں بیٹھ جائیں میں کچھ نہیں کہوں گا ساحل کی مسکراتی ہوئی آواز پر ایک پل کے لیے نایاب کے قدم رکے پر وہ بغیر پیچھے مڑے کمرے سے باہر آگئی۔۔۔۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔۔۔۔آج وہ ہوائیں ایسے ہی اچانک نہیں چلی تھی نایاب کو اس بات کا اچھے سے اندازا تھا آج کا دن اس قدر مصروف تھا اسے کچھ بھی سوچنے کا ٹائم نہیں ملا۔۔۔۔
اس نے جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلا۔۔۔۔دراز میں سے اپنی ٹیبلیٹ نکالی ڈاکٹر کے مطابق یہ دوائی اسے ایک ماہ تک کھانی تھی وہ دوائی منہ میں رکھتی اس سے پہلے کمرے کی لائٹ بند ہو گئی اس کے ہاتھ سے گولی نیچے گر گئی۔۔۔۔۔
کو۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔۔نایاب کے گلے میں گٹھلی سی ڈوب کے ابھری اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔وہ جلدی سے بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئی اتنے اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا
اسے اتنا پتہ تھا کے اس کے چیخنے چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس کے آواز کمرے سے باہر نہیں جاتی۔۔۔۔
ایک دم روم میں لائٹ واپس اون ہو گئی نایاب نے ڈرتے ہوئے کمبل کو اپنی مٹھی میں پکڑ لیا۔۔۔۔اس کا کمرا بلکل خالی تھا سامنے شیشے پر ایک جملا لکھا گیا تھا نایاب کی بڑی بڑی آنکھیں اور بڑی ہو گئی۔۔۔
تمہیں دوائی کی نہیں میری ضرورت ہے۔۔۔۔۔
نایاب نے یہ جملہ پڑھا اور جلدی سے لیٹ کر منہ تک کمبل اوڑھ لیا دل ہی دل میں درود پاک پڑھنے لگی پتا نہیں یہ کون تھا جو اس کا ساتھ ایک منٹ کے لیے نہیں چھوڑتا تھا
یا اللہ پلیز مجھے اس سے بچالو نایاب آنکھیں زور سے بند کیے دل میں دعا مانگنے لگی۔۔۔۔
میں کیا کیا بتاؤں تمہیں
کیا کیا یاد دلاؤں تمہیں
کل تک تمہیں رہنا تھا میرے پاس
اور آج
جس خدا سے مانگی ہے دوری
مت بھولو
وہ خدا بھی ہے ساتھ میرے
**************
شیری بھائی۔۔!! وہ سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی جب اس کی نظر دروازے سے باہر جاتے ہوئے شیری پر پڑی وہ جلدی جلدی سیڑھیوں سے نیچے آئی۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔؟؟ اس نے فون جیب میں رکھتے ہوئے نین کی طرف دیکھا اسے ایک جگہ جلد سے جلد پہنچنا تھا پر یہ میڈم اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔
وہ آپ کو شکریہ بولنا تھا آپ نے میری مدد کی نا اس لیے۔۔۔۔ نیچے نظریں کیے وہ اپنے ہاتھوں سے کھلتے ہوئے اس سے بات کر رہی تھی۔۔۔
اس کی ضرورت نہیں ہے نین۔۔۔۔اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی آج یہ شیرنی اس سے تمیز سے جو بات کر رہی تھی۔۔۔
جی ضرورت کیوں نہیں ہے آپ نے میرے پرنسپل سے بھی بات کی جس کی وجہ سے انہوں نے اگلے دن میرا پیپر بھی لے لیا آپ سچ میں بہت اچھے ہیں میں تو آج تک آپ کو ایسے ہی نکلی کا شیر کہتی تھی۔۔۔میرا مطلب ہے آپ تو سچ مچ میں شیر ہو۔۔۔شیری سے نظریں ملتیں ہی اس نے جلدی سے اپنا جملہ سہی کیا۔۔۔
اور کسی بات کے لیے بھی شکریہ بولنا ہے یا میں جاؤں مجھے لیٹ ہو رہا ہے شیری نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سریس تاثر کے ساتھ کہا۔۔۔
جی جی جاؤ آپ۔۔!! نین جلدی سے ایک طرف ہو گئی اس بار دل میں اسے کھڑوس نہیں کہا تھا نا ہی آج شیری کا ایسے بات کرنا اسے برا لگا تھا۔۔۔
شیری نے ایک آخری نظر اس پر ڈالی اور باہر آگیا۔۔۔۔گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اسے پھر سے سب یاد آیا کیسے معصوم بنی کھڑی تھی آج۔۔۔شیری نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔۔۔
ہیلو ہاں میں بس کچھ دیر میں پہنچ جاؤں گا تو بار بار فون کیوں کر رہا ہے شیری نے فون پر جھنجلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوو شٹ فائل تو میں گھر ہی بھول آیا شیری نے گاڑی کو بریک لگاتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
اب تو بکواس نہیں کر پہلے ہی میں بہت آگے آ چکا آدھا گھنٹہ لگے گا مجھے فائل لانے میں اب تو فون رکھ تاکہ میں فائل لے آؤں شیری نے غصے میں بولتے ہوئے فون جیب میں رکھا اور اپنی گاڑی موڑی میٹنگ کے لیے اسے وہ فائل لازمی چاہیے تھی۔۔۔
یہ گیٹ کیوں کھلا ہوا ہے۔۔؟؟ اور چوکیدار بھی نہیں ہے۔؟؟ اس کے ماتھے پر بل آئے وہ اپنی گاڑی وہی چھوڑ کر اندر آیا۔۔۔۔۔۔جیسے ہی اس نے لاؤنچ میں قدم رکھا سب چیزیں یہاں سے وہاں بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔شیری کو ایک دم نین کاخیال آیا۔۔۔نین۔۔۔نین۔۔۔وہ چیختا ہوا اندر آیا پر گھر خالی تھا۔۔۔
انکل۔۔۔!!زمین پر پڑے شہرازی صاحب کو دیکھ کر اس نے جلدی سے ان کو سیدھا کیا۔۔۔انکل آپ ٹھیک ہو۔۔؟؟شیری کے چہرے پر پریشانی تھی۔۔
نین اور آنٹی کہاں ہیں انکل؟ شیری نے ان کا کندھا ہلایا۔۔۔شہرازی صاحب نے آرام آرام سے آنکھیں کھولی۔۔۔
بتائیں انکل وہ دونوں کہاں ہیں یہ سب کس نے کیا شیری نے ان کو کندھے سے پکڑ کر بیٹھایا ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔
پان۔۔پانی۔۔۔شیری ہاں میں سر ہلاتا ہوا کچن میں گیا اور ان کے لیے پانی لایا انہیں اپنی مدد سے سوفے پر بیٹھا کر ان کو پانی کا گلاس تھامایا۔۔
بیٹا نین اور تمہاری آنٹی کسی رشتےدار کے یہاں گئی ہیں بس ابھی ابھی۔۔۔۔گھر پر صرف میں تھا جب وہ لوگ آئے۔۔۔ان سب کے چہرے پر ماسک تھا۔۔۔ایسا لگ رہا تھا وہ لوگ نین کو ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔گھر کا یہ حال بھی ان لوگوں نے کیا ہے۔۔۔۔جب انہیں کچھ نہیں ملا تو میرے سر پر پسٹل کا کونا مار کر وہ لوگ یہاں سے چلے گئے۔۔۔شہرازی صاحب نے آرام آرام سے اسے سب بتایا۔۔۔۔
انکل آپ پریشان نہیں ہو میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں جو بھی یہ سب کر رہا ہے اسے میں نہیں چھوڑوں گا اس کے ماتھے کی رگیں غصے سے صاف دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔
بیٹا وہ سب بعد میں اگر میں تم سے کچھ مانگوں کیا تم میری بات مانوں گے۔۔؟؟ شہرازی صاحب نے بہت امید سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
جی جی انکل ضرور پر ابھی میں آپ کے سر پر پٹی کر دوں خون بہہ رہا ہے وہ ان کو بول کے فرسٹ ایڈ باکس لینے گیا۔۔۔۔۔۔
**********
نایاب شہرازی آپ کو شابان شاہ کے نکاح میں دو لاکھ حق مہر کے عوض دیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔ مولوی صاحب کی آواز پر نین نے نم آنکھوں سے اپنے پاپا کو دیکھا جو اسے ہاں میں سر ہلانے کا کہے رہے تھے۔۔۔۔
قبول ہے۔۔۔۔۔۔
نین نے اپنی آنکھیں زور سے بند کرتے ہوئے اقرار کیا۔۔۔۔
ماما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں شیری بھائی بڑے ہیں بھائی ہیں میرے آپ ان سے شادی کا بول رہی ہیں جب کے ابھی بس میں سترہ سال کی ہوں نین نے آنکھوں میں آنسوں لیے صالحہ سے کہا۔۔۔
بیٹا تمہارے پاپا نے بہت سوچ سمجھ کر ہی یہ فیصلہ لیا ہے اور ہم بس نکاح کر رہے ہیں رخصتی نہیں۔۔۔جب تک تمہاری پڑھائی مکمل نہیں ہو جاتی ہم شادی نہیں کریں گے صالحہ نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔
نہیں مما۔۔۔۔۔ ان میں بہت غصہ ہے آپ ایسا نہیں کرو پلیز۔۔۔۔۔۔بس نین بہت ہوا اب یہ جوڑا پہن لو شام کو تمہارا نکاح ہے میں دوبارا نہیں سمجھاؤ گی صالح اس بار غصے سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔
جی قبول ہے۔۔۔!!شابان شاہ کی آواز پر نین اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی سب لوگ شیری کو مبارکباد دے رہے تھے۔۔نین نے ڈرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھا جو کسی بھی احساسات سے پاک تھا۔۔۔
************
ماہم مما۔۔۔۔ نایاب گھر میں یہاں سے وہاں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھی پر گھر میں کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔
وہ دونوں بازار گئے ہیں ساحل لاؤنچ میں بیٹھا کوئی مووی دیکھ رہا تھا جب نایاب کو پریشان دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا۔۔۔
بازار چلے گئے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔نایاب نے بغیر اس کی طرف دیکھے دل میں سوچا۔۔۔
آپ پلیز میرے لیے ایک کپ چائے بنا دیں گی ساحل نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پلیز پر زور دیا۔۔
جی بناتی ہوں۔۔۔نایاب ہاں میں سر ہلاتی ہوئی کچن میں آگئی ویسے تو اسے یہ ساحل اچھا نہیں لگتا تھا پر وہ منیب بھائی کا دوست جو تھا یہی سوچ کر اس نے چائے بنانے کی ہامی بھر لی۔۔۔۔۔
اس کے کچن میں جانے کے کچھ دیر بعد ساحل نے ٹی وی بند کیا۔۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی یہ لڑکی اسے بہت زیادہ پسند تھی ۔۔۔۔۔۔اب بس اسے بھی نایاب کی پسند بننا تھا۔۔۔۔
وہ اٹھ کر کچن کی طرف آیا نایاب کا رخ چولھے کی طرف تھا اس کا سارا دھیان چائے پر تھا۔۔۔
ہلکے گلابی کلر کے سوٹ میں سر پر ڈوپٹہ لیے وہ چائے بنا رہی تھی اس کی آنکھیں بہت بڑی بڑی تھی ساحل کو سب سے حسین اس کے بال لگے جو کمر سے بھی نیچے آرہے تھے اس نے سر سے پیر تک نایاب کا جائزہ لیا۔۔
وہ بغیر آواز کیے قدم قدم چل کر اس کے پیچھے آیا اس نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ نایاب کے کندھے پر رکھنا چاہا جب کسی نے بہت زور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ساحل کا ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔۔۔۔۔
اس نے حیرت سے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو ہوا میں رک گیا تھا ایسا لگتا تھا کسی نے بہت زور سے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اسے اپنا ہاتھ جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
ساحل نے چیخنا چاہا پر اس کے منہ پر بھی کسی نے ہاتھ رکھا تھا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ایسا لگتا تھا جسے کسی مضبوط انسان نے اسے پکڑا ہوا ہے پر وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔۔
کسی نے اسے پیچھے کی طرف گھسیٹ کر لاؤنچ میں پھینکا۔۔۔۔وہ بہت تیز زمین پر گرا اس نے اپنا بازو پکڑا اسے چوٹ لگی تھی پر وہ چاہ کر بھی چلا نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ساحل نے ڈرتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا پھر جلدی سے الٹے قدم اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔۔۔۔
وہ اپنی جھلستی آنکھوں سے اسے اوپر بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا وہ چاہتا تو ابھی اس شخص کو جان سے مار دیتا پر کسی کا خون وہ چاہ کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اس نے رخ موڑ کر اپنی جان سے پیاری بیوی کو دیکھا جو اسے مکمل بھولا چکی تھی جسے یہ تک یاد نہیں تھا وہ شابان شاہ کی بیوی ہے اس کی زندگی ہے۔۔۔۔
زندگی میں تو بچھڑے تھے بہت سے اپنے۔۔۔
پر تو نے جب سے بھولایا زندگی بچھڑ گئی۔۔۔
*************
جاری ہے
Marad By Zainab Shamim Marad By Zainab Shamim Download Complete Novel Click here for downlead… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم اس عظمت و بلندی والے رب کی عبادت کریں۔ بنت ندیم… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم خوبصورت لوگ کون ہوتے ہیں ؟ بنت ندیم عطاریہ جامعة المدینہ… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم پروکیسٹی نیشن (Procrastination ) بنت ندیم عطاریہ جامعہ المدینہ فیضان ابو… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم گہرے دوست زخرف بنت ندیم عطاریہ جامعة المدینہ فیضان ابو ھریرہ… Read More
قربِ الٰہی الله ﷻ کو پانے کے لٸیے ہمیں کچھ نا کچھ قربان کرناپڑتا ہے۔کوٸی… Read More
Leave a Comment