#دیوانہ
#صباحت_خان
قسط 1
کالی سیاہ رات میں چاند کی روشنی سڑک کو کچھ روشن کر رہی تھی چاروں اور جنگلات تھے جس میں سے عجیب سی آوازیں آرہی تھی ایسے میں وہ پریشان سی گاڑی چلا رہی تھی اس کا دماغ الگ الگ سوچوں میں بٹا ہوا تھا،
اس نے گاڑی کی اسپیڈ نارمل رکھی ہوئی تھی کیونکہ اس کا دھیان گاڑی چلانے سے زیادہ دوسری جگہ تھا،
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب بلاسٹ کی آواز آئی اس نے فوراً گاڑی کو بریک لگایا دل تیزی سے دھڑکنے لگا،
وہ گاڑی سے باہر آئی اس نے آس پاس دیکھا کالی سیاہ رات میں سڑک کے بیچوں بیچ وہ اکیلی تھی دور دور تک کسی زی روح کا نامو نشان نہیں تھا اس نے جھک کر دیکھا اسکی گاڑی کا ٹائر بلاسٹ ہو چکا تھا،
اس نے پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ رکھا،ایک تو اتنی رات کو وہ گھر سے اکیلی نکل آئی تھی اوپر سے یہ سب،اس نے پیچھے کی ڈگی کھولی اس میں اسپیر ٹائر بھی موجود نہیں تھا اب اس کے ماتھے پر پسینا آنے لگا،اس نے گاڑی سے اپنا موبائل نکال کر اون کیا جو وہ گھر سے نکلنے سے پہلے بند کر چکی تھی،موبائل اون ہونے کے بعد وہ گھر کال کرتی اس سے پہلے اس کی نظر سگنل پر گئی،
یا اللّٰہ سگنل بھی نہیں ہیں اب کیا کروں؟؟ خود سے سوال کرتی ہوئی وہ اس وقت پاگل لگ رہی تھی،
اچانک تیز ہوائیں چلنے لگی اس کے براؤن سلکی بال پیچھے کی طرف اڑنے لگے،ہوا کا دباؤ بڑھتا ہی جا رہا تھا
اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہوا کو اپنے چہرے سے ٹکرانے سے روکا،
ہواؤں کے ساتھ درخت کے پتوں کے ہلنے کی بھی آوازیں بڑھنے لگی وہ ہمت کر کے گاڑی کے اندر بیٹھنے لگی پر گاڑی کا دروازا جام ہو چکا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے زور لگا کے اسے باہر کی طرف کھینچنے لگی پر دروازا بہت سخت تھا اوپر سے ہوا کا دباؤ بڑھتا ہی جا رہا تھا،
اسے محسوس ہوا اس کے پیچھے کوئی ہے اس کی سانسیں تیز ہونے لگی،وہ دل میں درودشریف کا ورد کرنے لگی اسے لگ رہا تھا وہ پیچھے موڑے گی تو پھتر کی بن جائے گی،
ہنی!!!!! اس کے کان کے پاس ہوا کچھ بول رہی تھی اس نے ڈرتے ہوئے پھر سے آواز پر غور کیا_ہنی ڈرو نہیں_ہوا اس کے کان میں بہت آہستہ سے کچھ بول رہی تھی اس کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگی اس نے کپکپاتے وجود کے ساتھ پیچھے موڑ کر دیکھا پر وہاں کوئی نہیں تھا،
ہوا اس کے بال پیچھے کی طرف اڑا رہی تھی ہوا کی وجہ سے وہ اپنی آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی تھی اس کا سر چکرانے لگا اس نے مشکل سے اپنے سر کو تھاما، ایک دم اسے لگا اس کا وجود ہوا میں ہے کسی نے بہت پیار سے اسے بانہوں میں اٹھایا ہوا ہے، گاڑی کا دروازا خود کھول گیا، اسے لگا کسی نے نرمی سے اسے گاڑی میں بیٹھایا،
اس نے گھومتے سر کے ساتھ سامنے دیکھنے کی کوشش کی پر اسے وہاں کوئی نظر نہیں آیا
کو_کونہو_تم؟؟ اس کی آنکھیں آرام آرام سے بند ہو رہی تھی،
دیوانہ!!! اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی__پر وہ ہوش خرد سے بیگانی ہو چکی تھی پتا نہیں اس نے یہ سرگوشی سنی بھی تھی یا نہیں،
*****
کون…کون ہو تم۔۔۔ ؟ وہ ایک دم نیندوں سے اٹھ کر بیٹھ گئی اس کا پورا چہرا پسینے سے تر تھا اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھی۔۔۔دماغ میں بار بار وہ رات کا منظر آرہا تھا جب ایک دم اس کے روم کا دروازا کھولا،
کیا ہوا تمہاری آواز آئی ؟۔۔۔تم ٹھیک تو ہو۔۔؟ماہم جلدی سے اس کے پاس آئی جو اب تک دور خلاؤں میں کچھ دیکھ رہی تھی جیسے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہو،
ماہم وہ۔۔۔وہ رات کو جب میں باہر گئی تھی نا۔۔۔تو۔۔۔
تم باہر کب گئی ماہم نے اس کی بات کاٹ کر اسے نا سمجھی سے دیکھا۔
ارے رات کو میں تم سے ناراض ہو گئی تھی نا پھر میں غصے میں موبائل بند کر کے باہر چلی گئی تھی۔۔نایاب نے اسے رات والا منظر یاد دلانے کی کوشش کی۔۔،
ارے کب یار کیا ہوگیا ہے تمہیں نایاب۔۔؟ کل رات تم مجھ سے ناراض ہو گئی تھی پر تم اپنے کمرے میں آکر سو گئی تھی اور ابھی تم اٹھی ہو ماہم نے پیار سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پوری بات بتائی،
نہیں۔۔۔ماہم میں گئی تھی اور میری گاڑی کا ٹائر بھی۔۔۔تم ایسا کرو ابھی میرے ساتھ آؤ نایاب کو ایک دم کچھ یاد آیا ماہم کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے کار پارکنگ میں لے کر آئی،
یہ دیکھوں میری گاڑی کا ٹائر بلاسٹ ہو گیا تھا۔۔۔نایاب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا،
دیکھنے کی ضرورت مجھے نہیں تمہیں ہے میری بہن گاڑی کے سب ٹائر بلکل سہی ہیں ماہم کی بات پر اس نے جلدی سے گاڑی کو دیکھ کر اس کا چاروں طرف چکر لگایا سارے ٹائر واقعی سہی تھے اس کے ماتھے پر ڈر کے ساتھ پریشای بھی صاف دیکھائی دینے لگی،
نہیں ماہم۔۔۔سچ میں۔۔میرا یقین کرو، نایاب نے اس کی طرف دیکھ کر بچوں کی طرح کہا،
اچھا ابھی تم اندر چلو تم یہ بتاؤ تم نے رات کو دوائی لی اپنی۔۔؟ ماہم کے کہنے پر اس نے سر جھکا لیا،
ہاں مجھے پتا تھا نہیں لی ہوگی دوائی تم نے مجھ سے ناراض ہو کر جو سو گئی تھی چلو اندر تمہیں ناشتے کے ساتھ دوائی بھی دیتی ہوں ماہم نے اپنی اٹھارہ سال کی معصوم سی بہن کو دیکھ کر کہا اور اسے کندھے سے پکڑ کر اندر لے آئی،
تم دونوں صبح صبح باہر کہاں گئی تھی شازیہ نے ان دونوں کو لاؤنچ کے گیٹ سے اندر آتے دیکھ کر کہا،
ارے مما کہی نہیں ہم بس گارڈن میں ٹھنڈی ہوا کھانے گئے تھے ماہم نے مسکرا کر کہا،
اچھا۔۔۔، چلو تم دونوں فریش ہو جاؤ میں جب تک ناشتا بنا لیتی ہوں شازیہ ان کو مسکرا کے جواب دے کر کچن کی طرف بڑھ گئی،
ماہم اسے اس کے کمرے میں چھوڑ کر خود روم سے باہر جا چکی تھی اس نے خود کو آئینے میں دیکھا اس نے یہی بلیک سوٹ پہنا ہوا تھا جب وہ باہر گئی تھی پھر کیا وہ ایک خوب تھا نایاب کے چہرے پر پریشانی تھی،
*****
پاپا میرے پیارے پاپا اس نے لاڈ سے اپنے پاپا کے کندھے کر گرد بازوں حمائل کیے۔۔
میری پیاری گڑیا اٹھ گئی۔۔۔شہراز صاحب نے اپنی نادان اور لاڈلی بیٹی کی طرف پیار سے دیکھا۔۔۔
جی پاپا رات دیر ٹک اسٹیڈی کر رہی تھی تو آنکھ دیر سے کھلولی۔۔۔۔ اپنے پاپا کے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے لاڈ سے کہا،
اچھا بیٹا جلدی سے ناشتا کر لو پھر میرے ساتھ ایئرپورٹ چلو آج شیری آ رہا ہے نا شہراز صاحب کی بات پر فوراً اس کا منہ بن گیا،
پاپا میں نہیں جاؤں گی اس نکلی کے شیر کو لینے اس کے منہ بنا کر کہنے پر شہراز صاحب کو ہنسی آئی جسے وہ ہونٹوں کے درمیان دبا گئے،
تمہیں کتنی بار کہا ہے نین کے وہ تم سے بڑے ہیں بھائی بولا کرو۔۔کچن سے کام کرتی ہوئی صالحہ کی آواز آئی جس پر نین نے فوراً اپنی زبان کو دانتوں میں دبایا،
ارے مما میں نہیں جاؤں گی ان کو لینے ائیرپورٹ پر نین نے پاپا کی طرف دیکھ کر اپنی مما کو جواب دیا،
تو میں نے کب کہا ہے تم جاؤ یہ تو تمہارے پاپا کو شوق ہوتا ہے ہر جگہ تمہیں ساتھ لے کر جانے کا صالحہ میز پر کھانا رکھتے ہوئے شہراز صاحب کو گھور رہی تھی جنہوں نے اپنی بیٹی کو لاڈ لاڈ میں اتنا بگاڑ لیا تھا،
ارے بیگم تم بھی جب دیکھو میری نین کو ڈانتی رہتی ہو شیراز صاحب نے اپنی بیٹی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا،بیٹا چلو گی نا میرے ساتھ شہرازی صاحب کے پیار سے کہنے پر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا ویسے بھی وہ اپنے پاپا کی کوئی بات نہیں ٹالتی تھی،
اسکین کلر کے سوٹ میں گلے میں ڈوپٹہ لیے وہ سامنے آنے والوں کو دیکھ رہی تھی انہیں ائیرپورٹ آئے پندرہ منٹ ہوگئے تھے اور ابھی تک شیری کا کچھ پتا نہیں تھا،
ارے وہ آرہا شیری شہراز صاحب نے سامنے کی طرف اشارہ کیا نین نے بھی اس طرف دیکھا آنکھوں پر سن گلاسز لگائے وہ ان ہی کی سمت آرہا تھا صاف رنگت چہرے پر کوئی تاثر نہیں ایک ہاتھ میں اپنی کورٹ پکڑے اور دوسرے میں بیگ۔۔۔،وہ شیرازی صاحب کے کزن اور بچپن کے دوست کا بیٹا تھا جب بھی وہ یہاں آیا ہے تو شہرازی صاحب کے کہنے پر ان کے پاس ہی رکا ہے پر نین کو یہ کھڑوس ایک آنکھ نہیں اچھا لگتا۔۔وجہ صاف تھی جہاں نین کو ہر کوئی پیار کرتا ہر کوئی اس کے لاڈ اٹھاتا وہی شیری اسے دو تین بار شرارت کرنے پر ڈانٹ چکا تھا،
بیٹا کیسا سفر گزرا۔۔شیرازی صاحب نے اس سے گلے ملتے ہوئے کہا،
بلکل ٹھیک انکل۔۔اس نے ایک نظر نین کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسے بلکل نہیں دیکھ رہی تھی،
نین بیٹا سلام کرو۔۔شہرازی صاحب کے مسکرا کر کہنے پر نین نے ایک نظر اسے دیکھ کر احسان کرنے والے انداز میں سلام کیا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی،
شہرازی صاحب ڈرائیو کر رہے تھے اور شیری ان کے پاس بیٹھا انہیں یہاں کے کام کے بارے میں بتا رہا تھا شیری کے پاپا اور مما تو کب کے اس کا ساتھ چھوڑ کر جا چکے تھے اس نے اپنے بل پر اپنا بزنس اتنا پھیلا لیا تھا اسی کام کے سلسلے میں اسے اکثر یہاں آنا پڑتا تھا اور شہرازی صاحب کی وجہ سے وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہوٹل میں نہیں ان کے گھر ہی رکتا تھا،
اپنے پاپا کو شیری کے ساتھ مصروف دیکھ کر اس نے منہ بنایا شیری کی نظر سامنے مرر میں گئی نین کو منہ بناتے دیکھ اس نے دیکھ لیا تھا پر کہا کچھ نہیں وہ یہاں جب بھی رہنے آتا تھا اس لڑکی سے بیزار ہی رہتا تھا کیوں کہ یہ لڑکی ضرورت سے زیادہ شرارتی تھی اس کی عمر اب اتنی بھی کم نہیں تھی جو وہ بچوں کی طرح شرارت کرتی پھرے یہ شیری کی سوچ تھی۔۔۔وہ اپنا سر جھٹک کر واپس شہرازی صاحب سے باتوں میں مگن ہو گیا،
نام کا شیر آیا بڑا ایسے گھور رہا ہے جیسے مجھے کھا جائے گا نین نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے منہ ہی منہ میں کہا اگر نین کی سوچ شیری کے لیے اچھی نہیں تھی تو شیری کی سوچ بھی اس کے لیے کچھ خاص نہیں تھی۔۔
****
نایاب کہاں ہو ماہم نے اس کے روم میں جھانک کر کہا جہاں سناٹا تھا پر واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی،
نایاب میں اور مما بازار جا رہے ہیں ٹھیک ہے تم اپنا خیال رکھنا ہم تھوڑی دیر میں آجائیں گے ماہم تیز آواز میں کہتے ہوئے روم سے باہر نکل گئی،
جب تک نایاب نہاں کر آئی ماہم جا چکی تھی اس نے اپنے گیلے بالوں میں ٹاول باندھا اور باہر کی طرف آئی وہ ماہم کو روکنا چاہتی تھی اسے اب اکیلے ڈر لگتا تھا پر ماہم اور مما دونوں ہی جا چکے تھے اور پاپا بھی آفس تھے اس نے اپنے گھر کو دیکھا جو پورا سنناٹے میں تھا وہ واپس اپنے روم میں آگئی اور اپنے کمرے کو لاک کر لیا،
وہ صرف ایک خواب تھا نایاب۔۔۔۔ اس نے ایک بار پھر خود کو یاد دلایا اور اپنے بال سلجھانے لگی اس نے ڈارک براؤن کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت معصوم لگ رہی تھی اپنی بک لے کر وہ ماہم اور مما کا انتظار کرنے لگی۔۔
شام ڈھلنے لگی تھی پر مما اور ماہم اب تک نہیں آئیں تھی اسے اب تیز بھوک لگنے لگی اپنی بک کو ایک طرف رکھ کر وہ ہمت کر کے روم سے باہر آئی اکیلے گھر میں اسے ڈر لگ رہا تھا پر بھوک اس سے زیادہ لگ رہی تھی،
وہ کچن میں آئی پر وہاں کچھ بھی بنا ہوا نہیں تھا اس نے فرج کھولا اس میں بھی کچی سبزی گوشت وغیرہ تھا پر اسے کچھ بھی بنانا نہیں آتا تھا اس نے واپس فرج بند کر دیا،
اس نے پورے کچن میں نظریں دوڑائیں پر وہاں کھانے لائک کوئی چیز نہیں تھی اب لگتا ہے جب تک مما نا آجائیں پانی پی کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔۔۔ خود سے بولتے ہوئے اس نے فرج کھولا اور پانی کی بوتل نکال کر پینے لگی۔۔۔۔۔
پانی پی کر وہ پیچھے موڑی تو چونک کر ایک دم پیچھے ہوئی سامنے ہی بریڈ جیم فروٹ وغیرہ رکھے ہوئے تھے اس نے یہاں وہاں دیکھا پر وہاں کوئی نہیں تھا،
ابھی تو کچن کی سلیپ پر کچھ بھی نہیں تھا اس نے ڈرتے ہوئے سوچا اب اس کے پیر ڈر سے کانپ رہے تھے وہ ان چیزوں کو ہاتھ لگائے بغیر کچن سے باہر بھاگی اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا،
لاؤنچ میں بیچھے کالین میں اس کا پیر اٹکا آااااااا۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں زور سے بند کرلی وہ زمین پر گرنے کی جگہ ہوا میں ہی رک گئی۔۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں کھولی ایسا لگ رہا تھا کسی نے اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کے اسے گرنے سے روکا ہے پر نا وہاں کوئی تھا نا کسی کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔
اس کا پورا وجود کاپنے لگا وہ ایک دم پیچھے ہوئی اور نا میں سر ہلاتے ہوئے اپنے روم کی طرف بھاگی اور اندر آکر روم اچھے سے لاک کر کے گھرے گھرے سانس لینے لگی اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔۔۔
یہ وہی لمس تھا جو اس دن اسے محسوس ہوا تھا پر وہ کون تھا ۔۔۔۔؟؟ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھنے لگی جب اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر گئی جہاں فروٹ بریڈ جیم پانی سب موجود تھا نایاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے میں تو لائی نہیں اسے روم میں۔۔۔وہ واپس روم کے گیٹ کی طرف آئی پر اس کا لاک جام ہو چکا تھا نایاب کے چہرے پر پسینا آنے لگا وہ دل سے دعا کر رہی تھی مما ماہم آجائیں اسکے ہاتھ بلکل ٹھنڈے ہوگئے تھے۔۔۔۔،
کون ہو تم۔۔۔۔؟ کون ہو۔۔۔؟ اس نے پورے روم میں دیکھتے ہوئے چیخ کر کہا۔۔۔ پر ہر طرف خاموشی تھی ایسا لگ رہا تھا کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا وہ ڈرتے ڈرتے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی جب کافی دیر تک کوئی ہوا نہیں چلی نا کچھ عجیب ہوا تو اس کا ڈر کم ہونے لگا۔۔۔
ڈر کم ہونے پر اسے یاد آیا اسے بھوک لگی تھی اس نے بریڈ کی طرف دیکھا کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے بریڈ اٹھا لی اور یہاں وہاں دیکھتے ہوئے بریڈ پر جیم لگا کر اسے کھانے لگی۔۔۔
کچھ بریڈ کھانے کے بعد اس نے سیب اٹھایا پر کہی چھوری نہیں تھی اس نے یہاں وہاں دیکھا سائیڈ ٹیبل پر چھوری موجود تھی،اسے یاد تھا جب اس نے یہ چیزیں یہاں سے اٹھائی یہاں چھوری نہیں تھی اس نے ڈر کے واپس سیب پلٹ میں رکھا اور کمبل کندھے تک اوڑ کر یہاں وہاں ڈرتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔
آاااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوری کو خود ہوا میں اڑتے دیکھ اس نے ایک دم چیخ مار کے اپنا منہ بھی کمبل میں دے دیا پر تھوڑی دیر تک کوئی آواز نہیں آئی اس نے ڈرتے ڈرتے کمبل نیچے کیا چھوری وہاں موجود نہیں تھی اس نے ڈرتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا روم میں کوئی نہیں تھا بلکے ایک پلیٹ میں سیب کٹا ہوا اس کے سامنے رکھا ہوا تھا
پر نایاب کو کٹے ہوئے سیب کو دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی اس کی نظروں کا مرکز دوسری پلیٹ تھی جس پر جیم سے کچھ لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
(Don’t be afraid i’m with you)
اس نے کانتے ہونٹوں سے وہ لفظ پڑھے۔۔ کوئی اس کی مدد کر رہا تھا کوئی اسے کہہ رہا تھا ڈرو نہیں میں تمارے ساتھ ہوں پر وہ کون تھا اور اسی کے ساتھ کیوں تھا اس نے ڈرتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا اس بار اس نے چپ چاپ سیب اٹھا کر کھا لیا وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی اس کے آس پاس جو بھی ہے وہ اسے نقصان پہنچانا نہیں چاہتا،
اسے ڈرتے ہوئے سیب کھاتے دیکھ کوئی دور کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
*****
کہاں چلا گیا ؟؟ یہی رکھا تھا۔۔۔اپنا تکیہ اٹھا کر وہ جب سے لیپ ٹاپ کا چارجر تلاش کر رہا تھا جو کے ملنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔
وہ روم سے باہر نکل کر یہاں وہاں غصے سے دیکھ رہا تھا اس وقت اس نے ٹراؤزر کے ساتھ بلیک کلر کی رف سی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی پر ماتھے پر گہرے بل اس کے غصے کا پتا دے رہے تھے۔۔
کیا ہوا شیری بیٹا کچھ چاہیے تھا آپ کو۔۔۔!!!صالحہ کچن سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی اس کی طرف آئی۔۔
جی انٹی وہ میرا چارجر میں یہی رکھ کر گیا تھا پر اب مل نہیں رہا کیا کوئی آیا تھا میرے روم میں جب میں نہانے گیا ہوا تھا۔۔؟
ہاں بیٹا نین گئی تھی تمہارے روم میں اسی سے پوچھ لو کیا پتا اس نے لیا ہو۔۔۔!!! صالحہ مسکرا کے جواب دیتے ہوئے واپس چلی گئی جب کے اس کے ماتھے کے بل اور گہرے ہوگئے وہ غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نین کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
سوری یار میرا لیپ ٹاپ بند ہو گیا تھا چارجر بھی نہیں مل رہا تھا ابھی ڈائناسور کے روم سے لے کر آئی ہوں۔۔
ہاں تو تم کیا بتا رہی تھی۔۔اپنا پین منہ میں دبائے بکھرے بالوں کے ساتھ وہ اپنی دوست سے وڈیو کال پر مگن تھی اس نے ٹی پنک کلر کا ڈھیلا ڈھالا نائٹ سوٹ پہنا ہوا تھا اس وقت اس کا سارا دھیان پڑھائی پر تھا کل اسے کالج میں یہ نوٹس لازمی جما کروانے تھے۔۔۔ابھی وہ غور سے اپنی دوست کی بات ہی سن رہی تھی جب کسی نے ایک جھٹکے سے اس کا لیپ ٹیپ پیچھے سے بند کیا،
اففف کون ہے۔۔؟ نین نے جھنجھلاتے ہوئے سامنے دیکھا شیری غصے سے اسے گھور رہا تھا اس نے اپنی زبان دانتوں میں دبائی،
آپ کو یہ بھی نہیں پتا کے کسی کے روم میں آنے سے پہلے دروازا نوک کرنا چاہیے نین نے بیڈ پر کھڑے ہوکر لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھا،
اچھاااا۔۔۔ شیری نے غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ اچھا کہا۔۔
آپ میرے روم میں میری اجازت سے آئی تھی؟؟ اور میرا چارجر کس کی اجازت سے لائی…!!؟ اب شیری نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔
آپ کا چارجر نہیں۔۔ آپ کے لیپ ٹاپ کا۔۔ آپ تو انسان ہو مشین نہیں ہاہاہاہا۔۔۔اپنی بات بول کر وہ خود ہی ہسنے لگی جب کے شیری کی گھوری چالوں تھی پر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔۔۔۔ کبھی ایسا ہو سکتا تھا نین اور کسی سے ڈر جائے؟
آئندہ میری چیزوں کو میری اجازت کے بغیر ہاتھ نہیں لگانا۔۔!!اس کا بازوں غصے سے پکڑ کے اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا اور اپنے لیپ ٹاپ کا چارجر لے کر روم سے نکلتا چلا گیا،
میری چیزوں کو ہاتھ نہیں لگانا آیا بڑا ڈائناسور۔۔۔ بیڈ پر کھڑے کھڑے وہ غصے سے اس کی نقل اتار رہی تھی اگر یہ شیری دیکھ لیتا تو یقیناً اس کا گلا دبا دیتا۔۔۔!!
ہائے نین اب تجھے اپنا چارجر ہی ڈھونڈنا ہوگا بیڈ سے نیچے اتر کر اب وہ پریشان سی اپنا چارجر تلاش کر رہی تھی کیونکہ نین کی کوئی چیز کبھی ٹھکانے پر نہیں ہوتی تھی صالحہ کے بقول اس میں ایک اچھی لڑکی کی ایک بھی عادت نہیں تھی۔۔۔
******
نایاب اٹھو۔۔۔!! تم اس ٹائم کیوں سو گئی..؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔؟ ماہم پریشانی سے اسے اٹھاتے ہوئے کبھی اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ رہی تھی تو کبھی اسے ہلا رہی تھی۔۔!!
ماہم۔۔تم آگئی۔۔۔؟ وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھی اور ڈر کے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔
کیا ہوا نایاب تم ٹھیک ہو نا۔۔؟ ماہم نے پیار سے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا۔۔
ماہم وہ۔۔۔وہ۔۔روم میں بریڈ وہ۔۔۔نایاب نے بولتے بولتے سائڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا پر وہاں پر کچھ نہیں تھا۔۔
کون سی بریڈ یہاں تو کچھ نہیں ہے ماہم نے پہلے سائڈ ٹیبل کو پھر اسے دیکھا۔۔
ماہم یہی پر تھے۔۔۔میں۔۔تمہیں شروع سےبتاتی ہوں۔۔مجھے بھوک لگ رہی۔۔میں کچن میں گئی۔۔پر وہاں کچھ نہیں تھا۔۔تو۔۔
کیسی بات کر رہی ہو نایاب میں تمہارے لیے پاستا بنا کر گئی تھی تمہیں پسند ہے نا پاستا اس لیے میں نے سوچا ہمیں آنے میں دیر ہو جائے گی تو میں تمہارے لیے بنا کے رکھ دوں ماہم نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔۔
نہیں ماہم کچن میں کچھ نہیں تھا فرج میں بھی کچھ نہیں تھا میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے بریڈ کھائی وہ یہاں تھی۔۔ روم میں بریڈ اس نے سائڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کا یقین دلانا چاہا۔۔۔
میری جان تم میرے ساتھ آؤ ماہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچن کی طرف لے کر آئی سامنے ہی ایک باؤل میں پاستا ڈھکا ہوا رکھا تھا۔۔یہ دیکھو یہ رہا پاستا اور تم کہہ رہی ہو کچن میں کچھ نہیں تھا ماہم نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے دیکھا۔۔،
نایاب حیرت سے پاستا دیکھنے لگی اسی جگہ تو اسے بریڈ جیم وغیرہ رکھے ہوئے نظر آئے تھے یہ کیسے یو سکتا ہے۔۔۔؟ماہم سچ میں یہ یہاں نہیں تھا نایاب کو اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی۔۔،
اچھا یہ بتاؤ تم نے دن میں دوائی لی تھی اپنی۔۔؟ ماہم اس کا ہاتھ پیار سے پکڑ کر اسے روم میں لے جانے لگی۔۔۔
ماہم پتا نہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ نایاب کو سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔،
کچھ نہیں ہو رہا نایاب یہ سب تم زیادہ سوچ رہی ہو دیکھو ایسا کچھ نہیں ہے بس تم اپنی دوائی ٹائم پر لو پھر دیکھنا تم بلکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔!! ماہم کے پیار سے کہنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا اور دودھ سے دوائی لینے لگی۔۔
دوائی دے کر ماہم نے اسے سولا دیا اور خود روم سے باہر آگئی۔۔۔!! نایاب نے ڈرتے ہوئے چاروں اور دیکھا روم کی لائٹ اس نے بند کرنے نہیں دی تھی اب اسے اندھیرے سے اور بھی زیادہ ڈر لگتا تھا۔۔
تھوڑی دیر میں وہ گہری نیند میں جا چکی تھی کسی نے بہت پیار اور دکھ سے اس کی طرف دیکھا۔۔
ڈول۔۔۔۔
کیوں آنکھ ملائی تھی…کیوں آگ لگائی تھی۔۔۔!!
کر کے مجھے دیوانہ۔۔۔۔کیا ضروری تھا بھول جانا۔۔۔!!
اس ہوا نے پیار سے اس کے ماتھے کو چھوا تھا اگر وہ اٹھی ہوئی ہوتی تو یقیناً ڈر جاتی۔۔۔،
لیکن اگر وہ جان جاتی یہ دیوانہ کون تھا تو شاید خوشی سے پاگل ہو جاتی۔۔۔
*****
جاری ہے
Marad By Zainab Shamim Marad By Zainab Shamim Download Complete Novel Click here for downlead… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم اس عظمت و بلندی والے رب کی عبادت کریں۔ بنت ندیم… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم خوبصورت لوگ کون ہوتے ہیں ؟ بنت ندیم عطاریہ جامعة المدینہ… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم پروکیسٹی نیشن (Procrastination ) بنت ندیم عطاریہ جامعہ المدینہ فیضان ابو… Read More
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم گہرے دوست زخرف بنت ندیم عطاریہ جامعة المدینہ فیضان ابو ھریرہ… Read More
قربِ الٰہی الله ﷻ کو پانے کے لٸیے ہمیں کچھ نا کچھ قربان کرناپڑتا ہے۔کوٸی… Read More
Leave a Comment